پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
بابا بلھے شاہ (جس کا اصل عبد اللہ شاہ تھا) ایک مشہور صوفی شاعر، فلسفی، اور صلح کل کے علمبردار تھے۔ آپ 3 مارچ 1680ء کو اوچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے اور بعد ازاں قصور کے قریب پانڈو میں سکونت اختیار کی۔ آپ کی شاعری نے نہ صرف پنجابی زبان کو فروغ دیا بلکہ صوفیانہ فکر کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
بلھے شاہ کے والد شاہ محمد درویش مسجد کے امام اور مدرسے کے استاد تھے۔ بھلے شاہ نے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی اور بعد ازاں قصور شہر جا کر قرآن مجید، حدیث مبارکہ، فقہ، اور منطق میں مہارت حاصل کی۔ آپ نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ شطاریہ خیالات سے بھی استفادہ کیا۔
بلھے شاہ نے شاہ عنایت قادری کے ہاتھ پر بیعت کی، جو ذات کے آرائیں تھے۔ اس عمل نے ذات پات اور فرقہ واریت کے خلاف آپ کے موقف کو تقویت دی۔ آپ شاہ عنایت کو انسانِ کامل سمجھتے تھے اور ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔
بلھے شاہ وحدت الوجود کے قائل تھے اور ہر شے کو مظہرِ خدا سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری میں عشقِ حقیقی اور انسانی مساوات کے خیالات غالب طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ نے مذہبی شدت پسندی اور ظاہری عبادات پر سخت تنقید کی اور عشق کو شرع کی معراج قرار دیا۔
بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا تاکہ عام لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکیں۔ ان کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالم گیر محبت کا درس نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ آپ نے علمِ بے عمل کی مذمت کی اور ترکِ دنیا کے خلاف آواز بلند کی۔ کچھ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیئے:
"پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی”
بلھے شاہ کا انتقال 22 اگست 1757ء کو ہوا اور آپ قصور میں مدفون ہیں۔ آپ کا مزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے اور ہر سال وہاں عرس منعقد ہوتا ہے جہاں عقیدت مند آپ کی شاعری گا کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
بابا بلھے شاہ کی پنجابی شاعری صوفیانہ فکر، انسانی مساوات، اور محبت کا عظیم مظہر ہے۔ ان کا پیغام آج بھی دنیا بھر میں انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے فلسفیانہ خیالات اور کلام نے صوفی ادب کو نئی جہت دی اور معاشرتی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے بابا بھلے شاہ کلام پیش خدمت ہے۔
*
ویکھ فریدامٹی کھلی
مٹی اُتے مٹی ڈُلی
مٹی ہسے مٹی رووے
انت مٹی دا مٹی ہووے
نہ کر بندیا میری تیری
نہ اے تیری نہ اے میری
چار دناں دا اے میلہ دنیا
فیر مٹی دی بن گئ ڈھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر توں
توں وی مٹی او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر توں
ذات وی مٹی پات وی مٹی
ذات صرف رب دی اُچی
باقی سب کچھ مٹی مٹی
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔