خوف کا پلگ
ایک اطالوی کہاوت سنی تھی۔ اس کا صرف سرسری سا مفہوم یاد ہے کہ، "موت کے خوف سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آکسیجن سلنڈر کی تار کھینچ دو۔” اس ضرب المثل میں ‘آکسیجن سلنڈر کی تار کھینچ دو’ کا انگریزی زبان میں ترجمہ Pull the plug of oxygen بنتا ہے۔ مختصرا اس مقولہ کو انگریزی میں Pull the plug اور اردو میں ‘تار کھینچ دو’ بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ کہاوت اس حوالے سے بہت خوبصورت اور توانائی فراہم کرنے والی ہے کہ ہمیں زندگی کا ہر کام بلا خوف و ججھک طریقے سے انجام دینا چاہئے۔ اس سے کام کی انجام دہی آسان ہو جاتی ہے۔ اعتماد اور بہادری بذات خود بہت بڑی طاقت ہیں۔ اگر خوف اور ڈر کو بھی دماغ سے نکال دیا جائے تو ہم کوئی بھی کام یا کارنامہ اسی آسانی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں جس طرح ہم کوئی کام عام روٹین میں رہ کر کرتے ہیں۔
یہ کہاوت ہمارے ایک دوست طارق چیمہ صاحب نے سنائی تھی جو اٹلی میں دس سال رہے تھے۔ وہاں انہوں بڑی کامیاب زندگی گزاری اور جب وہ دبئی آئے تو یہاں بھی بہت کامیاب ہوئے۔ ان کو اکثر بڑے عجیب و غریب کام کرتے دیکھا۔ عجیب و غریب اس لیئے کہا ہے کہ عام آدمی ایسے کسی منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے ڈرتا اور گھبراتا ہے۔ ان کا خاصہ تھا کہ وہ رات کو جو سوچتے تھے صبح اس پر عمل کر گزرتے تھے۔ ان کے ایسے منصوبوں میں ناواقف کاروں سے تعلق جوڑنا اور ان سے دلیری سے کام نکلوانا شامل ہوتا تھا۔ وہ کھڑے کھڑے کسی سے یونہی تعلق بنا لیتے تھے۔ خاص طور پر وہ تعلق بناتے وقت کھانے کی دعوت دیتے اور اجنبیوں کو بھی تحائف دیتے تھے۔ انہیں ایسے کئی منصوبوں پر عمل کرتے آنکھوں سے دیکھا جن کو انجام دیتے ہوئے عام لوگ گھبراتے ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں بعض دفعہ ایسے مواقع ضرور آتے ہیں جب انسان کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے مگر وہ اس سے فقط اسی صورت میں باہر نکلتا ہے جب وہ اپنے دل سے خوف اور ڈر کو باہر نکال دیتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم انسان ہیں زندگی بھر کسی خوف کے سائے میں نہیں جی سکتے ہیں۔ خوشی زندگی کی آکسیجن ہے اور یہ بعض اوقات یہ اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب دماغ سے خوف کو نکالا جاتا یے۔ زندگی میں خوف کی مثال ایسی ہے کہ آدمی کسی خاص کیفیت میں ایسا ہی سوچتا ہے کہ اگر اس نے یہ کیا، وہ کیا یا ایسا ویسا کیا تو وہ ناکام ہو جائے گا یا اس کا بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ حالانکہ بہت سے بظاہر مشکل کام صرف خوف کی وجہ سے مشکل دکھائی دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ مشکل نہیں ہوتے ہیں۔ مشکل کام ہمارے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے مشکل معلوم ہوتے ہیں مگر جب انہیں عملی طور پر انجام دیا جاتا ہے تو وہ آسانی سے ہو جاتے ہیں۔
پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ، "چوڑ چوڑ دے مرنے نالوں اکو واری مرنا چنگا.” جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ پچھتاوے اور خوف کی وجہ سے بار بار مرنے سے بہتر ہے کہ کوئی کام کرنے کے لیئے دلیری سے ایک ہی بار موت کو گلے لگایا جائے۔ جب کبھی ہم کسی مشکل کام کے بارے سوچتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا ہوں تو ہم خود منفی طور پر میسمیرائز ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم سوچیں کہ ہاں میں یہ کام کر سکتا ہوں تو ہماری مثبت توانائی متحرک ہو جاتی ہے اور ہم وہ مشکل کام بھی آسانی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ جب آپ کوئی مشکل کام کرنے سے خوف زدہ ہوں تو پیچھے مڑ کر اپنی ان کامیابیوں پر نگاہ ڈالیں جن کے بارے میں شروع میں آپ کو لگتا تھا کہ آپ اس کام کو نہیں کر پائیں گے۔
انسان اپنی ذاتی موٹیویشن سے زیادہ کسی اور سے موٹیویشن کی خیرات نہیں لے سکتا ہے اور اگر کسی سے متاثر ہو کر انسان کے اندر موٹیویشن پیدا بھی ہو جائے تو وہ اس کی اپنی توانائی ہوتی ہے۔ آدمی کو
دوسروں کے سامنے شرمندگی اٹھانے کی بجائے خود اپنی زندگی میں موجود موٹی ویشن کے خزانوں سے فائدہ اُٹھانا چایئے۔ کیونکہ ہر انسان کی زندگی خوابیدہ کامیابی کی داستانوں سے بھری پڑی ہوتی ہے۔ موٹیویشن کا مطلب اپنے اندر کی صلاحیتوں کو جگانا اور انہیں شعلہ دکھانا ہوتا ہے۔ جب ایک بار انسان اندر سے جاگ جاتا ہے تو پھر اس کی ساری مشکلات آسانیوں میں بدل جاتی ہیں۔
انسان کی زندگی میں ماضی بہادری کا ایک بہت بڑا سبق ہے۔ ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کیسے ہمارے خوف خوشیوں میں بدلتے رہے۔ کبھی آپ کو لگتا تھا کہ آپ سائیکل نہیں چلا پائیں گے، کبھی دوسروں کی طرح پانی میں تیر نہیں پائیں گے، ہائی سکول سے کالج نہیں پہنچیں گے، سکول کی ٹیم میں منتخب نہیں ہونگے، کبھی خود سے اپنی محنت کے بل بوتے پہ پیسے نہیں کما پائیں گے، کبھی کسی اور ملک میں گھومنے پھرنے نہیں جا سکیں گے۔ لیکن یہ سارے خوف محض ہماری غلط فہمیاں تھے جن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیئے ہم اسی طرح ڈرتے تھے جیسے موت و حیات کی کشمکش میں آکسیجن کی مشین پر لگا ہوا ایک مریض ڈرتا ہے کہ اگر اس نے تار کھینچ دی تو وہ مر جائے گا۔ اگر زندگی ہو تو آکسیجن والی مشین کے بند کرنے سے انسان مرتا نہیں یے، کیونکہ یہ صرف ہمارا خوف ہوتا ہے جو ہمیں بار بار مارتا ہے۔
ایک بار آپ سوچیں کہ وہ امتحان جنہیں آپ امتیازی نمبروں سے پاس کر چکے، کبھی ان کے بارے میں سوچ کے دل ڈوبتا تھا کہ امتحان میں کیا بنے گا؟ اپنی محبت کے سامنے جا کے اظہار کیسے کریں گے؟ اکیلے گاؤں سے شہر کیسے جائیں گے؟ ہاسٹل میں گھر کو چھوڑ کر رہ نہیں پائیں گے؟ نوکری تو ملے گی ہی نہیں؟ کیا میں اپنی زندگی کا بوجھ خود اُٹھا پاؤں گا؟ میں پیسے کیسے کماؤں گا؟ میں کیسے خوش رہوں گا۔ میری شادی کیسے ہو گی؟ معلوم نہیں بچے ہونگے یا نہیں اور ہونگے تو وہ کیسے نکلے گے؟ بچوں کی ذمہ داری کیسے اٹھا پاوں گا؟ اکیلا جہاز میں کیسے سفر کروں گا؟ نوکری ملی یا کاروبار کیا تو کسٹومرز کو کیسے ہینڈل کروں گا؟ گاڑی کیسے چلاؤں گا؟ اتنے لوگوں کے سامنے کیسے بولوں گا؟ پھر ایک دن ایسا آیا کہ آپ نے خوف سے جان چھڑانی اور ایک ایک کر کے آپ کے سارے کام آسانی کے ساتھ ہوتے چلے گئے۔
آپ نے زندگی کی الجھنوں کا حل ڈھونڈ لیا اور پھر آپ بھی پلنگ کھینچنے کے ماہر بن گئے، خوف دور ہو گیا اور زندگی آسان ہو گئی۔
آپ زندگی کے سبھی خدشات کو رد کرنا سیکھیں۔ آپ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو خوف کو دور کر کے دوسرے کر لیتے ہیں۔ سوچیں کہ ایک وقت تھا کہ جن کاموں کو کرنے کے بارے سوچ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ وہ کام جنہیں کرنے سے آپ کی جان جاتی تھی۔ آج وہ کام کرنے آپ کے لئے بچوں کا کھیل ہے۔ بلکہ آج آپ وہ سارے کٹھن کام کامیابی سے کر چکے ہیں۔ جنہیں کرنے کا خیال بھی آپ کو ڈرا دیا کرتا تھا۔
جو کام اس وقت آپ کے سامنے ”ناممکن“ کا سائن بورڈ لے کے کھڑے ہیں۔ ایک دن ان کو بھی آپ ”ہو گیا“ کی فہرست میں ڈال سکتے ہیں۔ تو پھر ناکامی کا خوف کیسا؟ بس آکسیجن کا پلنگ کھینچنا سیکھیں، زندگی میں ہر ناممکن ممکن اور ہر مشکل آسان ہونا شروع ہو جائے گی۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |