ہمارا دماغ سائنسی تحقیق کے مطابق تصاویری شکل میں سوچتا ہے۔ ایک سروے میں جب یہ کہا گیا کچھ لوگوں سے کہ اپ انکھیں بند کریں اور اپ نے اپنی والدہ کے بارے میں نہیں سوچنا اس کے علاوہ دنیا میں اب جو چاہے سوچ سکتے ہیں ۔بے شک اپ کی ماں نے اپ کے لیے بہت محنت کی ہو راتوں کو جاگی ہو اپ کو ہر تکلیف سے بچایا ہو اب جس مقام پہ ہیں ۔اج اس کو لیکن اپ نے اپنی والدہ کے علاوہ پوری دنیا اپ کے پاس ہے کچھ بھی سوچ سکتے ہیں لیکن اپ نے اس کے علاوہ کسی چیز کو نہیں سوچنا سروے کے بعد جب انکھیں کھولی گئی اور ان سے پوچھا گیا کہ کتنے فیصد لوگ تھے جو صرف اپنی والدہ کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے تو اکثریت ہی نہیں 90 پرسنٹ لوگوں کا یہی خیال تھا کہ وہ اسی چیز کے بارے میں اپنی والدہ کے بارے میں ہی ان کو اس کا دھیان بار بار اسی طرف جا رہا تھا اس لیے جیسے ہی میں نے یہ لفظ بولا یا اپ نے یہ پڑھا اچھے حکمران تو اپ کے دماغ میں فورا حکمران کے لفظ سنتے ہی اپ کے دماغ میں زرداری ،مشرف ،عمران خان وغیرہ اگئے ہوں گے لیکن میرا مقصد قطعاان کی طرف جانا نہیں تھا۔
کسی علاقے میں ایک رواج تھا کہ ایک خاص وقت کے لیے کسی شخص کو بادشاہ مقرر کیا جاتا تھا ۔جیسے ہی وہ وقت ختم ہوتا تھا اس کو ایک خوفناک جنگل میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور وہ نیا بادشاہ منتخب کر لیتے تھے۔ جنگل اس قدر خوفناک تھا کہ وہاں پر تازہ پانی تک نہیں تھا ۔ہوا سمیت موسم انتہائی نا گوار تھا ، ہر طرح کے خطرناک جنگلی جانور موجود تھے اور کوئی بھی بادشاہ وہاں سے زندہ بچ کے کبھی واپس نہیں ایا۔اسی طرح ایک دن بادشاہ چننے کا وقت ایا تو جو شہر میں پہلا شخص داخل ہوا انہوں نے کہا جی ہمارے رواج کے مطابق اپ بادشاہ بنیں گے لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ ایک سال کے بعد بادشاہت اپ کو چھوڑ دینا پڑے گی اور آپ کو ایک خالی خوفناک جگہ پہ چھوڑ دیا جائے گا۔اگر اپ کو یہ شرط منظور ہے تو ہم اپ کو بادشاہ بنا لیتے ہیں۔ عام طور پر زیادہ تر لوگ یہ شرط قبول ہی نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ سال کے بعد تو موت یقینی ہے لیکن کچھ لوگ جو زیادہ تر ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں اسی طرح کی سوچ کہ چلو ایک سال تو اچھا گزرے گا تو وہ بادشاہت لے لیتے تھے اور اپنے دنیا کاموں پہ لگ پڑتے جیسے بادشاہت میں ہوتا ہے۔ طاقت کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے آرڈر دینے حکمرانی کرنی اچھا کھانا اپنے اپنا تسلط قائم رکھنا اس بات کو بھول جاتے تھے کہ آخر انہوں نے ایک سال کے بعد یہاں سے ہٹنا ہے اور پھر ان کی یقینی موت ہے لیکن یہ شخص مختلف تھا حکمرانی دی تو اس نے سب سے پہلے ہی بادشاہت پہ بیٹھتے ہی اپنے مشیروں سے پہلے تو اس بات کی تصدیق کی کہ کیا یہ واقعی ایسا ہوتا ہے کہ سال کے بعد بادشاہ کو جو ہے خاص جگہ پہ چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی بادشاہ واپس نہیں آتا جب سب نے اس بات کی تصدیق کی تو اس نے اپنے مشیروں کو کہا کہ اس جگہ جا کے صحیح سے سروے کر کے ائیں کہ اخر وہاں پر مسئلہ کیا ہے جب مشیر واپس ائے تو انہوں نے بتایا کہ وہ جگہ بہت خوفناک ہے اگر وہاں کے موسم سے بچ جائے کوئی انسان تو پھر اس کو جنگلی جانور بھی نہیں چھوڑیں گے اور اگر کسی طرح خوش قسمتی سے وہ سانپوں بچھو اور مگر مچھوں اور دوسرے جانوروں سے بچ بھی جائے تو وہاں زندہ رہنے کی کوئی حالات ہی نہیں ہیں نہ کھانے پینے کی کوئی خاص چیزیں ہیں نہ پینے کے لیے صاف پانی ہے اور نہ کوئی شخص ہے جس سے وہ بیٹھ کے باتیں کر سکے اور اپنا دل بہلائے اور اپنی زندگی گزار سکے بادشاہ نے کہا کیوں نہ سب سے پہلے اسی کام کو حل کیا جائے اس نے اپنے مشیروں کو کہا کہ سب سے پہلے جا کے وہاں کے فالتو درخت کٹوائے جائیں اور وہاں پر ندی کھود کر تازہ پانی کا بندوبست کیا جائے جنگلی جانوروں کو یا تو پکڑ لیا جائے یا ان کو پنجروں میں بند کر دیا جائے یا دوسرے علاقوں کی طرف دھکیل دیا جائے اور اس کے علاوہ وہاں کے غریب لوگوں کو جن کے پاس زمینیں نہیں تھیں ان کو وہاں پر اباد کیا ان کو پیسے دیے ایسے حالات پیدا کیے ک وہاں پہ فصلیں ہو گئیں اور وہ خوشحال ہو گئے اس طرح وقت گزرتا گیا اخر کار بادشاہ اپنی بادشاہت بھی پوری کر لی اور ایک سال گزر گیا اور جب اخر کار بادشاہ کے اترنے کا وقت ایا اور سب لوگ بادشاہ کو چھوڑنے لگے تو لوگوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ اپ ہی ہمارے بادشاہ اور ہم ہمیشہ ہمارے بادشاہ رہیں گے کیونکہ پہلے جو بادشاہت لوگ اتے تھے وہ اس قابل نہیں ہوتے تھے وہ ایک سال میں بادشاہت کے نشے میں یہ بات بھول جاتے تھے کہ انہوں نے یہاں سے اترنا بھی ہے لیکن ایک سال میں اپنی موت کو نہیں بھولا بادشاہت کے نشے میں ا کر ایسے فیصلے نہیں کیے جس کے اپ کو بھگتنا پڑے اور اب وہ خطرناک جنگل بھی نہیں رہا ایک باقاعدہ رہنے کی خوبصورت جگہ بن چکی ہے جہاں پہ نہ صرف پینے کا صاف پانی ہے وہاں پر باقاعدہ فصلیں اگتی ہیں وہاں پر لوگ ہیں جنگلی جانور بھی نہیں ہیں موسم کے حالات بھی ایسے ہیں وہاں پر ایک خوبصورت گھر بھی بنا ہوا ہے جہاں پر اپ جا کے رہ سکتے ہیں چھٹیاں گزار سکتے ہیں لیکن بادشاہ اپ ہمیشہ ہی رہیں گے سے اپ سبق کیا سیکھتے ہیں یہ میں اپ پہ چھوڑتا ہوں لیکن ہم میں ہر وہ شخص وہ بادشاہ ہے جس کو اللہ تعالی نے اس دنیا میں بھیجا ہے
اور ایک خاص مقررہ مدت کسی کی 50 سال 60 سال 70 سال زیادہ سے زیادہ سو سال گزرنے کے بعد ہمیں ایک خاص تنہائی میں رہنا ہے جہاں پر کچھ کھانے پینے کے لیے نہیں کچھ روشنی نہیں کوئی بھی چیز نہیں ہوگی ہمیں بھی اسی سمجھدار بادشاہ کی طرح اپنے ساتھ اپنے نیک اعمال کو لے کر جانا ہوگا حسد کینہ بغض چغلی لوگوں سے جلنا دوسروں کے ساتھ مکمل از نہ کرنا یہ چیزیں ہمارے اس گھر کو مزید تاریخ کر دیں گے اس کے بجائے لوگوں کے لیے خیر کا جذبہ رکھنا معاف کرنا اللہ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر چلنا یہ سب چیزیں وہاں روشنی اور خوشحالی کا سبب بنے گی اب فیصلہ اپ پر ہے کہ اپ وہ بادشاہ بننا چاہتے ہیں جو ایک سال یا کچھ عرصہ عیاشی کر کے پھر جنگلی جانوروں اور تاریکی کی نظر ہو جانا چاہتا ہے یا وہ بادشاہ جو یہاں رہ کر یہاں سے بھی لطف اندوز ہو اپنی بادشاہت سے بھی لطف اندوز لیکن اپنی اگلی منزل کے لیے بھی اسانیاں پیدا کرے ہمیشہ کی طرح ذرا نہیں مکمل سوچیے تجربہ شرط ہے
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔