تعلیمی بحران اور سردیوں کی طویل تعطیلات
تعلیم ایک قوم کی ترقی کا سنگِ بنیاد ہے۔ جب کسی قوم کے نوجوانوں کو معیاری تعلیم اور تربیت فراہم کی جاتی ہے تو وہ معاشرتی ترقی، اقتصادی بہتری، اور اخلاقی بلندی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کو ہمیشہ سے کم ترجیح دی گئی ہے، جس کا مظہر حالیہ برسوں میں سردیوں کی غیر ضروری طویل تعطیلات ہیں۔ ان تعطیلات کو عموماً "سردی کے نام” پر دیا جاتا ہے، لیکن یہ نظامِ تعلیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی سال کو عالمی معیار کے مطابق کم از کم 180 دن کا ہونا چاہیے، لیکن پچھلے کئی سالوں سے یہ معیار پورا نہیں ہو رہا۔ سردیوں کی طویل چھٹیوں کی وجہ سے تعلیمی دنوں میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔ طلبہ کو وہ وقت نہیں مل رہا جو ان کے نصاب کو مکمل کرنے اور امتحانات کی تیاری کے لیے درکار ہے۔
حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ سردیوں کی تعطیلات کا دورانیہ غیر معقول حد تک بڑھا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ موسمی حالات یا دیگر بہانے بنائے جاتے ہیں۔ اس دوران طلبہ کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جہاں اکثر وہ تعلیمی سرگرمیوں کی بجائے سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز، یا دیگر غیر تعلیمی مشاغل میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ صرف ان کا نصاب مکمل نہیں ہوتا بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی اکثریت بھی ان تعطیلات کو ایک موقع سمجھتی ہے آرام کرنے کا۔ ان کا تعلیمی نظام پر زور دینے کی بجائے اپنی سہولت کو ترجیح دینا ایک تشویشناک پہلو ہے۔ دوسری جانب نجی تعلیمی ادارے، جو تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، حکومتی پالیسیوں کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ نجی شعبے پر پورے تعلیمی نظام کا بوجھ ڈالنا حکومتی ناکامی کا ثبوت
اگر یہ تعطیلات ناگزیر ہیں تو حکومت اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ انہیں بامقصد بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ اس میں درج ذیل نکات اہم ہیں:
آن لائن کلاسز کا انعقاد:
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن کلاسز کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس سے طلبہ اپنی تعلیم کا تسلسل برقرار رکھ سکتے ہیں اور غیر ضروری وقت ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
ہوم ورک اور تعلیمی منصوبے:
تعلیمی ادارے طلبہ کو تعطیلات کے دوران مختلف تعلیمی منصوبے اور ہوم ورک فراہم کریں، تاکہ وہ گھر پر بھی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول رہ سکیں۔
تعلیمی کیمپ کا انعقاد:
حکومت کو خاص طور پر نویں، دسویں اور کالج کے طلبہ کے لیے "تعلیمی کیمپ” کی مشروط اجازت دینی چاہیے۔ ان کیمپوں میں طلبہ کو مختلف نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
تعلیمی کیمپ ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے سردیوں کی تعطیلات کو بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔ ان کیمپوں میں درج ذیل سرگرمیاں شامل کی جا سکتی ہیں:
تعلیمی مواد کی تیاری:
طلبہ کو نصاب کے اہم موضوعات پر خصوصی لیکچرز دیے جائیں۔ ان کیمپوں میں ماہر اساتذہ کو شامل کیا جائے تاکہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات پوری ہو سکیں۔
امتحانات کی تیاری:
سالانہ امتحانات قریب ہونے کی وجہ سے طلبہ کو امتحانات کی تیاری کے لیے خصوصی کلاسز دی جا سکتی ہیں۔
غیر نصابی سرگرمیاں:
طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں جیسے ڈرامے، مباحثے، اور کھیلوں کا انعقاد کیا جائے۔
کیریئر کونسلنگ:
کالج اور نویں، دسویں جماعت کے طلبہ کے لیے کیریئر کونسلنگ کے سیشن منعقد کیے جائیں، تاکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہتر فیصلے کر سکیں۔
والدین کو بھی اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہیے۔ تعطیلات کے دوران بچوں کی نگرانی اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو غیر تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھیں اور ان کی تعلیمی پیش رفت پر نظر رکھیں۔
ماہر تعلیم ابرار احمد خان، جو ایپسما کے صدر ہیں، نے بروقت خبردار کیا ہے کہ سردیوں کی غیر ضروری تعطیلات طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہیں۔ ان کی رائے میں حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہییں تاکہ اس نقصان کا ازالہ کیا جا سکے۔
حکومت کو اس مسئلے کا فوری حل نکالنا ہوگا۔ درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
تعلیمی کیلنڈر پر نظرثانی:
تعلیمی کیلنڈر کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ طلبہ کے نصاب کی تکمیل یقینی ہو سکے
اساتذہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز منعقد کیے جائیں۔
تعلیمی پالیسی میں اصلاحات کی جائیں تاکہ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
تعلیمی کیمپ کے انعقاد کی اجازت:
حکومت کو خاص طور پر نویں، دسویں اور کالج کے طلبہ کے لیے تعلیمی کیمپ کی مشروط اجازت دینی چاہیے
یہ وقت ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی قومی ترجیحات میں شامل کریں۔ سردیوں کی تعطیلات کو بامقصد بنانا اور طلبہ کو تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ حکومت، والدین، اور تعلیمی اداروں کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکیں۔ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جو کسی قوم کو ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے، اور اس مقصد کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانی ہوں گی۔
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔