16دسمبر اے پی ایس پشاور اور باجوڑ کے بچوں کی المناک یادیں

16دسمبر اے پی ایس پشاور اور باجوڑ کے بچوں کی المناک یادیں

تحریر محمد ذیشان بٹ
16 دسمبر 2014 کا دن پاکستان کی تاریخ کے المناک ترین دنوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس دن پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے نے نہ صرف معصوم بچوں کی جانیں لیں بلکہ پوری قوم کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا۔ دہشت گردوں نے انسانیت کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے 149 قیمتی جانوں کو چھین لیا، جن میں 132 معصوم بچے بھی شامل تھے۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے نے ہر انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہمیں دہشت گردی کی اس بھیانک حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔
لیکن 16 دسمبر کا یہ دن ہمیں ایک اور دلخراش واقعہ بھی یاد دلاتا ہے، جسے شاید تاریخ نے کم جگہ دی ہو لیکن انسانیت کے خلاف اس جرم کی گونج آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ واقعہ 2006 میں باجوڑ کے مدرسے پر امریکی ڈرون حملہ ہے، جس میں 80 سے زائد معصوم بچے شہید ہوئے۔ آج ہم ان دونوں سانحات کو یاد کرتے ہوئے یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں کہ انسانیت کی قدریں آخر کہاں کھو گئی ہیں؟ کیوں معصوم بچوں کو جنگوں اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے؟
اے پی ایس پشاور کا سانحہ ایک منصوبہ بند دہشت گردی کا واقعہ تھا جس میں دہشت گردوں نے اسکول کے احاطے میں داخل ہو کر معصوم بچوں پر گولیاں برسا دیں۔ اس دن اسکول علم کے گہوارے کے بجائے ایک مقتل بن گیا۔ بچوں کے چہروں پر خوف اور آنکھوں میں آنسوؤں کی تصاویر آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں تازہ ہیں۔


اس حملے کے پیچھے دہشت گردوں کا مقصد قوم کو ڈرانا اور اس کے مستقبل پر حملہ کرنا تھا۔ لیکن ان بچوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ہمیں یہ سبق دیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم کبھی کمزور نہیں ہوگا۔ یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا باب ہے جو ہمیشہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف یکجہتی اور قربانی کا درس دیتا رہے گا۔
باجوڑ کے علاقے میں پیش آنے والا سانحہ بھی اتنا ہی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ 30 اکتوبر 2006 کو امریکی ڈرون نے ایک مدرسے کو نشانہ بنایا، جس میں 80 سے زائد معصوم بچے شہید ہوئے۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ دہشت گردوں کے خلاف تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مدرسے میں معصوم بچے قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
یہ حملہ پاکستان کی خودمختاری کے خلاف تھا اور ان معصوم جانوں کے زیاں پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ لیکن افسوس کہ عالمی میڈیا نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی، اور نہ ہی دنیا کے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں نے کوئی موثر احتجاج کیا۔
پشاور اور باجوڑ کے یہ سانحات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر بچے کیوں جنگوں اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں؟ کیا ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ایسے علاقوں میں پیدا ہوئے جہاں طاقت کے حصول کی جنگ جاری ہے؟
پشاور کے بچے دہشت گردی کی جنگ کا شکار ہوئے، جہاں ان پر براہ راست حملہ کیا گیا۔
باجوڑ کے بچے عالمی طاقتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھے، جہاں ان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا الزام لگا کر حملہ کیا گیا۔
ان دونوں سانحات میں ایک چیز مشترک ہے: معصومیت پر حملہ۔ بچوں کی ہنسی، ان کے خواب اور ان کا مستقبل چھین لیا گیا۔
ایک اہم پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ میڈیا اور عالمی برادری کا منافقانہ رویہ ہے۔ اے پی ایس پشاور کے سانحے پر جہاں پاکستانی قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، وہاں عالمی میڈیا نے بھی اس واقعے کو بھرپور کوریج دی۔ اس پر بین الاقوامی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا اور دنیا نے پاکستان کے دکھ میں شرکت کی۔
لیکن باجوڑ کے بچوں کے قتل عام پر نہ عالمی میڈیا نے آواز اٹھائی اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے کوئی خاص ردعمل دیا۔ کیا یہ معصوم بچے انسان نہیں تھے؟ کیا ان کے خون کی قیمت صرف اس لیے کم تھی کیونکہ وہ ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے؟
یہ عالمی منافقت کا واضح ثبوت ہے۔ جب دہشت گردی کا الزام مسلمانوں پر ہو تو پوری دنیا اس پر احتجاج کرتی ہے، لیکن جب معصوم مسلمانوں کو طاقتور ممالک کے حملوں میں مارا جائے تو اسے "کولیٹرل ڈیمیج” کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
یہ دونوں سانحات ہمیں بہت سے اہم سبق دیتے ہیں:
دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو، اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ پشاور کے بچوں کی قربانی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ صرف طاقت کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی، بلکہ ہمیں اپنی سماجی، تعلیمی اور ثقافتی بنیادوں کو بھی مضبوط کرنا ہوگا۔
باجوڑ کے سانحے نے یہ حقیقت آشکار کی کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتیں۔ ہمیں اپنے ملک کی خودمختاری کی حفاظت کے لیے مزید مستعد ہونا ہوگا۔
سب سے اہم سبق یہ ہے کہ بچوں کی معصومیت کو کسی بھی جنگ یا سیاست کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اپنی پالیسیاں بہتر بنانی ہوں گی۔
ہم پشاور اور باجوڑ کے ان معصوم بچوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
یادگاریں تعمیر کی جائیں: ان بچوں کی قربانیوں کو یاد رکھنے کے لیے قومی اور مقامی سطح پر یادگاریں تعمیر کی جائیں۔
تعلیمی اصلاحات: تعلیم کو مضبوط کر کے ایسے حالات کو روکا جا سکتا ہے جہاں بچوں کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہو۔
انصاف کی آواز بلند کی جائے: چاہے سانحہ اے پی ایس ہو یا باجوڑ، ہمیں ان بچوں کے خون کا انصاف حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔


16 دسمبر کا دن ہمیں نہ صرف اے پی ایس کے بچوں بلکہ باجوڑ کے معصوم شہداء کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دونوں سانحات اس بات کی علامت ہیں کہ جنگ، دہشت گردی اور طاقت کی سیاست نے معصومیت کو کس طرح نشانہ بنایا ہے۔
یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان بچوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ ہمیں اپنی پالیسیاں، رویے اور سوچ بدلنی ہوگی تاکہ مستقبل میں کسی بھی معصوم بچے کو جنگ یا سیاست کا ایندھن نہ بنایا جا سکے۔
یہ دن ہمیں یکجہتی، عزم اور انسانی قدروں کی بحالی کا درس دیتا ہے۔ ہم ان معصوم شہداء کو کبھی نہیں بھولیں گے، کیونکہ ان کی قربانیاں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔

Title Image by Goran Horvat from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں