ملاوٹ اور لالچ
کہانی کار: سید حبدار قائم
اسلم گاوں کا سب سے بڑا گوالا تھا اُس کے گھر میں خوشحالی تھی اُس کی ساری بھینسیں دودھ دیتی تھیں اس کا سکول اور کالج کی کنٹینوں کو دودھ دینے کا کاروبار تھا اس لیے وہ اُنہیں دودھ مہیا کرنے کے لیے روز جاتا تھا اسلم نے موٹر سائیکل پر چار چار دودھ والے ڈبے لٹکاۓ ہوتے تھے جن میں وہ دودھ لے کر جاتا تھا
اسلم کا ایک ہی بیٹا تھا جو ڈگری کالج میں پڑھتا تھا جس کا نام اختر تھا وہی اس کی امیدوں کا محور تھا اسلم اس کی ہر خواہش پوری کرتا تھا اختر نے ایک دن اپنے ابا سے کار کی فرمائش کر دی تو اسلم نے فوری طور پر کچھ رقم دے کر اسے قسطوں پر کار لے دی اختر نے کار پر ہی کالج میں آنا جانا شروع کر دیا تھا دن بڑی تیزی سے گزر رہے تھے کار کی قسط جمع کرنےکے لیے اسلم نے دودھ میں پانی ڈالنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے کالج کنٹین والوں نے اس سے شکایت کی لیکن اس نے کوئ بہانہ بن کر معاملہ رفع دفع کر دیا
ایک دن اسلم نے دودھ دوہا اور جلدی جلدی کالج کنٹین کے لیے تیاری کرنے لگا اس کی بھینسوں نے دودھ کم دیا تھا اسلم نے دودھ کی کمی دور کرنے کے لیے پانی کی بالٹی رکھی ہوئ تھی جس کا منہ بھی ڈھکا ہوا نہیں تھا اس نے جلدی جلدی دودھ میں پانی ڈالا اور کالج کنٹین میں دودھ دینے کے لیے چلا گیا
سردیوں کے دن تھے اسلم کا بیٹا اختر کالج پہنچ گیا تھا اس کا پہلا پیریڈ خالی تھا اس لیے وہ اپنے دو دوست لے کر کنٹین پر چاۓ پینے کے لیے چلا گیا جاتے ہی اس نے خیرو چاچا کو تین دودھ پتی کا آرڈر دیا تھوڑی دیر بعد دودھ پتی میز پر تھی اختر اور اس کے دوست دودھ پتی پینے لگے انہوں نے دو چار گھونٹ دودھ پتی پی تھی کہ انہیں قے آنی شروع ہو گئ اور دم گھٹنے لگا اختر بے ہوش ہو گیا لڑکوں نے شور مچایا تو اختر کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پہنچنے سے پہلے وہ دم توڑ چکا تھا
میڈیکل چیک اپ کے بعد پتہ چلا کہ دودھ پتی میں زہر تھا پولیس کنٹین پر پہنچ گئی اور دودھ کے ساتھ چاۓ والے برتن اپنے قبضے میں لے لیے۔ دودھ کی رپورٹ جب سامنے آئی تو پتہ چلا کہ اس میں زہر تھا پولیس نے جب اسلم کے گھر تلاشی لی تو پانی کی بالٹی میں سانپ کا سر پایا اسلم اپنی لالچ کے باعث بری طرح پھنس چکا تھا
ہوا یوں کہ اسلم کے گھر میں ایک پیپل کا درخت تھا جس پر ایک شاھین آ کر بیٹھا جس کے منہ میں سانپ تھا سانپ کھانے کے لیے شاھین نے اس کا سر کاٹ کر نیچے پھینکا جو کہ پانی کی بالٹی میں گرا وہی پانی اسلم نے دودھ میں ملایا جسے ملاوٹ کے بدلے قدرت نے بیٹے کی موت اور جیل کی سزا دے دی
اسلم اپنی غلطی اور لالچ پر بہت شرمندہ تھا وہ اپنے بیٹے کی موت پر بہت روتا تھا گاوں والے لوگ بھی اس سے نفرت کرنے لگے تھے لیکن اب وقت نکل چکا تھا اب پچھتاوے کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا
لالچ انسان کی دشمن ہے جو اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی ملاوٹ جان لیوا ہوتی ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں اسی لیے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے ارشاد فرمایا
”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے“
پیارے بچو!
اسلم نے دودھ میں ملاوٹ کی جسے اللہ نے دنیا میں ہی سزا دے کر اس کا بیٹا چھین لیا اس لیے ہمیں کسی چیز میں ملاوٹ نہیں کرنی چاہیے اور دوسروں کو بھی اس گھناؤنے کام سے روکنا چاہیے کیوں کہ یہی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کا بھی حکم ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔