پروفیسر محمد افضل راشد کی غزل گوئی
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
پروفیسر محمد افضل راشد حبیب ٹاؤن دریاخان روڈ بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ نیا رنگ و ڈھنگ کے اشعار تخلیق کرنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ ماضی ، حال اور مستقبل کی روشنی بانٹنے کا جذبہ ان کی غزل گوئی میں بے ساختہ پن کے ساتھ موجود ہے ۔ جس سے قاری کو جینے کی نئی امنگ ملتی ہے ۔
پروفیسر محمد افضل راشد کا اُردو شعری مجموعہ ٫٫ ساعتِ ہجر ،، کو اُردو سخن چوک اعظم ، لیہ نے 2015ء کو شائع کیا ہے ۔ جس کے صفحات 128 ہیں ۔ ان کی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد اسلم چھینہ ( شعبہء اردو گورنمنٹ گریجویٹ کالج ، پتوکی) کہتے ہیں پروفیسر محمد افضل راشد ارود شاعری کی ایک توانا آواز ہیں ۔ مگر اُن کی غزلیں نظموں پر بھاری ہیں ۔ اُن کی سب سے بڑی عطا یہ ہے کہ اُنھوں نے غزل کی روایتی مضامین کو آفاقیت سے مملو کیا ہے ۔ نتیجتاً اُن کی شاعری مقامی نہیں رہی ۔ وہ ایک خطہ یا علاقہ سے بڑھ کر پوری انسانیت کی ڈوبتی اُبھرتی خواہشات اور مچلتے جذبات کی ترجمان ہے ۔ اُس میں وہ ساری صورتیں موجود ہیں جو اکیسویں صدی کے انسان کی بن سکتی ہیں ۔ پس یہ بات کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ٫٫ ساعتِ ہجر ،، روز مرہ جذبات و احساسات سے لے کر زندگی کے گمبھیر آلام و مسائل تک ہر چیز سے عبارت ہے ، جس کی آمد اردو شاعری میں ایک خوب صورت اضافہ ہے ۔ اِس بات کو افضل راشد ہی کے ایک شعر سے یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ :
شہر سارا کھڑا ہے چشم براہ
آپ کے انتظار میں کچھ تو ہے
***
فرنٹ فلیپ
آخر میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
***
ہمارا المیہ ناگفتنی ہے
ہمارے خواب مر تے جارہے ہیں
**
ہمیں ہے نیند میں چلنے کی عادت
زمانہ مت ہمیں بیدار سمجھے
***
بے خطر دار تک چلے آئے
جو درِ یار تک چلے آئے
***
دھوپ کا سلسلہ بتاتا ہے
ایک ہی پہر ہے کہانی میں
***
وہ شاید پانیوں کا دیوتا تھا
مری آنکھوں میں دریا بھر گیا ہے
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔