کاظم حسین کاظم کی غزل گوئی
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
کاظم حسین کاظم بستی آرئیانوالی دریا خان شہر ( بھکر) کے رہائشی ہیں ۔ اِن کی غزل گوئی کا جائزہ لیا جائے تو صاحبِ استاد ہیں ۔ جن کے اسلوبِ فن میں قدیم و جدید کا امتزاج ہے ۔ روایت پرستی ہے فن میں جدت مگر محبت و مودت کا عنصر نمایاں ہے ۔ ضلع بھکر کے چند شعراء جو غزل گوئی سے خوب واقف ہیں کہنہ مشق ہیں ۔ ان میں کاظم حسین کاظم کا نام صنفِ اول میں ہے ۔ بحور ، ردیف اور قافیہ سے اِس طرح آشنا کہ الفاظ منتظر ہیں کہ کہاں اور کیسے بُنت میں آجائیں یہ کاظم حسین کاظم کا ہی کمالِ فن ہے طرزِ اداء میں بے ساختگی بیان میں وضاحت ، بلاغت ، خلوص ، محبت مودت قاری کو اپنا گرویدہ اور سامع کو واہ ، واہ پر مجبور کر دیتی ہے ۔ لکھتے تو سبھی ہیں ۔ خلوصِ دل سے لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور یہی بات ہے جو کسی کے بس کی بات نہیں ، موضوعات کی کمی نہیں اِن کے ہاں نت نئے تجربات ہیں ۔ عام سے موضوع کو خاص زاویہ نگاہ اور وجدان کے کمال سے وہ غزل تخلیق کرتے ہیں ۔ جو دلوں پہ نقش ہو جاتی ہے ۔
خالق داد چھینہ کاظم حسین کاظم کی غزل گوئی کے حوالے سے کہتے ہیں ۔ بہت سے شعرا قادر الکلام ہوتے ہیں اور بیدار شعور بھی کاظم ان میں منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ جو سیماب صفت تخلیقی مزاج رکھتے ہیں ۔ نت نئے موضوع اور ندرت سے کلام میں تخیل کا مربوط اظہار ان کا ہی خاصہ ہے ۔ لکھتے ہیں بے تھکان اور لاجواب لکھتے ہیں ۔ غزل گوئی میں جدت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے ۔ متروک قافیوں کو بھی جلا دیتے بعض مختصر مگر گہری بات یوں بے ساختہ کہ جاتے ۔۔۔ کہ سامع و قاری سحر زدہ ہو جاتا ہے ۔ ماضی کو حال کے ساتھ مربوط کر کے مستقبل میں بیان کرنے کا ہنر کاظم پر مودت اہلِ بیت علیہ السّلام کی بنا پر خاص عطا ہے ۔ خالق ہے الفاظ کا چناؤ بُنت اور مراتب انشاء میں ہم عصروں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ شعر ، ڈوہڑہ ، قطعہ ، غزل ، نظم ، نوحہ ، سلام ، مرثیہ ، قصیدہ ، منقبت الغرض تمام صنف میں مثالی تخلیق کرکے بھکر کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے ۔
فون پر لی گئی رائے ۔
آخر میں غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
تختی قلم دوات سے پہلے کی بات ہے
یہ عشق کائنات سے پہلے کی بات ہے
سچ ہے کہ میں پیار کا منکر بنا رہا
ہاں ہاں یہ تیری ذات سے پہلے کی بات ہے
اب تو ترے غلط پہ بھی آمین کہہ دیا
انکار تیری بات سے پہلے کی بات ہے
بس بے سبب فرات پہ الزام آ گیا
یہ پیاس تو فرات سے پہلے کی بات ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔