تخیل، تخلیق اور تکمیل
میں ایک عرصے تک اس مغالطے کا شکار رہا ہوں کہ کائنات میں کوئی ایسی جگہ یا ستارہ ضرور موجود ہے کہ جہاں پہنچ کر ہماری سوچ مجسم ہو جاتی ہے یعنی ہم زندگی بھر میں جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں، یا اور جو کچھ بھی ہمارے تخیل میں آ رہا ہے وہ کائنات کے کسی مقام پر پہنچ کر ضرور جسم حاصل کر رہا ہے۔ اپنے ذہنی اور روحانی خیالات کو تجسیم کرنا ایک انتہائی دلچسپ عجوبہ ہے اور کسی معجزہ سے کم نہیں ہے مگر مادے کی حقیقی دنیا میں ایسا ہوتا ہوا یا تو الہامی انبیاء کی تاریخ میں نظر آتا ہے اور یا پھر ایسا صرف ہالی وڈ کی سائنس فکشن موویز میں ہوتا ہے۔
میں ایک عام سا معمولی ذہنی سطح کا آدمی ہوں، زیادہ ذہین و فطین بھی نہیں ہوں کہ کوئی غیرمعمولی تخلیق ہی سرزد کر سکوں اور نہ ہی میرے قبضے میں کوئی ایسی خلائی مخلوق ہے کہ جو یہ "مافوق الفطرت” کارنامہ میرے لیئے انجام دے دے۔ اس کے باوجود کون ایسا باشعور انسان ہے جو اپنے ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں چاہتا ہو گا۔ میں جب ایسی بظاہر ناممکن چیزیں سوچتا تھا تو یہ سوال اکثر میرے ذہن میں آتا تھا کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں اگر وہ ہمارے سامنے یا کسی دوسری جگہ پر مجسم نہیں ہو سکتا ہے تو اس کے خیالات ہمارے دماغ میں آتے ہی کیوں ہیں؟
یہ سنہ 1993ء کی بات ہے ایک دن ایسا ہوا کہ میری اس سوچ کی بھنک زرمست خان کو ہو گئی۔ وہ سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجن ڈویژن FATA اسلام سیکرٹریٹ میں 21ویں گریڈ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ میں ان دنوں 11ویں سکیل کا اسسٹنٹ (کلرک) تھا۔ اس موضوع پر گفتگو کے لیئے انہوں نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور بتایا کہ کوئی بھی خیال ہمارے دماغ میں اسی وقت آتا ہے جب وہ اس چیز سے ٹکرا کر واپس ہمارے دماغ کے نیورانز کو آ کر چھوتا ہے جس کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر اگر فرانس پیرس میں ایستادہ ایفل ٹاور یا کائنات کے نوری سالوں کی دوری پر واقع کسی ستارے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کی اشکال ہمارے دماغ میں تب تک نہیں بن سکتی ہیں جب تک ہماری سوچ کے خیالات ان چیزوں سے ٹکرا کر واپس ہمارے دماغ کو ان کے وجود اور موجودگی کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔
یہ معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ اور تخیلاتی ہونے کے باوجود ٹھوس دلائل کا حامل ہے کہ ہم اس وقت تک کسی چیز کا تصور ہرگز نہیں کر سکتے ہیں کہ جب تک وہ چیز کسی جگہ پر موجود نہ ہو۔
اگرچہ اس نوع کا علم میری تجسیمی سوچ اور خیالات کے لیئے بہت حوصلہ افزاء تھا مگر وہ دن اور آج کے دن تک میں سائنس پڑھتا رہا ہوں ماسوائے سوائے ٹیلی پیتھی TELEPATHY کے جسے عام طور پر "سوڈو سائنس” کہا جاتا ہے خیالات کے مجسم ہونے کا عمل یا طریقہ کار میں نے کسی جگہ نہیں پڑھا ہے۔
گزشتہ روز ایک امریکی پاکستانی مکرمی زبیر حسین کی تحریر نظر سے گزری جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تخیل (یعنی ہماری سوچ کی پرواز) جارج برنارڈ شاہ کے بقول تخلیق کا آغاز ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ ہر وہ چیز جس کا ہم تصور کرتے ہیں قدرت نے پہلے ہی تخلیق کر رکھی ہے. پابلو پکاسو کی رائے میں ہمارے تصور میں آنے والی ہر شئے حقیقی وجود رکھتی ہے.
خود زبیر حسین کی رائے یہ ہے کہ ہمارا تصور یا تخیل جو چیزیں ہمیں دکھاتا ہے وہ کائنات میں کہیں نہ کہیں وجود رکھتی ہیں. یہ امکان بھی موجود ہے کہ کائنات ہمارے تصور، تخیل، یا نئے خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے سرگرم ہو جاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے فکشن آج حقیقت بن چکی ہے.
لیکن اس زعم خویش حقیقت کا انکار کیسے کیا جائے کہ علم کے بغیر تخیل کی پرواز محدود ہوتی ہے، یا یوں کہیں کہ جو چیزیں ہمارے شعور یا لاشعور کے علم میں نہیں ہیں ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک بہرا گونگا بھی ہوتا ہے اسی طرح ہمارا تخیل علم کے بغیر گونگا اور بہرا ہے۔ ہم نے جن چیزوں کے بارے دیکھا اور سنا نہیں ہے ان کے بارے سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ وہ چپٹی ہیں یا مخروطی ہیں۔
آپ تخیل کے ان کمالات کے بارے کیا کہیں گے کہ میرا ایک دوست اپنے تخیل میں ہاتھی کو سوئی کے نکے سے گزرتا دیکھ رہا ہے۔ اب کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ایسا کہیں ہو رہا ہو گا؟ ایک دوسرے صاحب کے مطابق انکے تخیل میں نورا فتحی انکی آرام گاہ میں پرفارم کر رہی ہے، آپ اسے کیا کہیں گے؟
قرآن کریم میں اللہ پاک نے خود کو سب سے بہترین تخلیق کار کہا ہے۔ انسان خدا کی بہترین اور احسن تقویم مخلوق ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور مان لیتے ہیں کہ انسان بھی ایک اچھا تخلیق کار ہے یعنی انسان بھی خدا کے نائب کے طور پر چیزوں کو مجسم یا تخلیق کر سکتا ہے۔
برناڈشا کا یہ قول قابل غور ہے کہ سوچ، تصور اور تخیل کو عمل اور تخلیق کے پہلے قدم کے طور پر لیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے تخیل کی پرواز اور رفتار اک حیرت انگیز phenomenon ہے جو پلک جھپکنے سے پہلے انسان کو لامکاں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ وہم ہے، سراب ہے یا دماغی شعبدہ بازی ہے لیکن ایسا ہر انسان محسوس کر کے ذہنی سکون کی خاطر نہ صرف تصوراتی طور پر خوش کن پرفضا مقامات کی سیر کو نکل سکتا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر پل بھر میں اپنے پیاروں کو بھی اپنے سامنے مجسم کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے میں آج بھی انسانی تخیل اور سوچ کو روشنی کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ کائنات کی تیز ترین رفتار سے تعبیر کرتا ہوں۔ اس سے نہ صرف ذہنی سکون بلکہ جسمانی سکون بھی محسوس ہوتا ہے۔ تخیل کے اندر انمول توانائی ہے۔ کاش اسے دوسروں تک با آسانی منتقل کیا سکے۔ تخیل اور تصور سے ہی نئے جہان تخلیق ہوتے ہیں۔
لیکن سوال پھر وہی ہے کہ بھرپور تخیل کے لئے علم و آگہی اور نیز تجربے سے گزرنا ایک بہت بڑی دماغی مہم جوئی ہے۔ سائنس اس خیالاتی چیز کو نہیں مانتی ہے۔ بنا جانکاری کے تصور اور تخیلاتی ہیولا کیسے بنے گا جو معلومات کے پرتو میں بننا چایئے۔ البتہ میں مثبت فریب اور ہذیانیت Hallucinations کو اس لیئے پسند کرتا ہوں کہ اس میں کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں اور کچھ چیزیں دکھائی دیتی ہیں، جو حقیقت میں ہوتی نہیں ہیں۔
چیزوں کو اپنے تخیل سے تخلیق کرنے کا یہ مرحلہ کب اور کیسے مکمل ہو گا، یا اس کے لیئے کونسا نیا علم ایجاد ہو گا، یہ ایسا سوال ہے جو ہم میں سے ہر ایک خواب کے طور پر دیکھتا اور سوچتا ہے۔ بزبان شاعر، "تم سرسری جہاں سے گزرے ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا۔” ملٹی یونیورسز اس مد میں بہت پرامید سائنسی تھیوریز ہیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔