پروفیسر جاوید عباس جاوید کی غزل گوئی

پروفیسر جاوید عباس جاوید کی غزل گوئی

تحریر : مقبول ذکی ، بھکر

مکان نمبر A ۔ 13 محلہ سردار بخش بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ پروفیسر جاوید عباس جاوید کا اُردو شعری مجموعہ ٫٫ راستے آساں ہوئے ،، 2022ء کو اُردو سخن پاکستان ، چوک اعظم ، لیہ نے بڑے خوبصورت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ 160 صفحات پر مشتمل مجموعہ میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں اِس میں شامل کلام ملکِ پاکستان کے معروف و مشہور رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتا رہا ہے ۔ جس کی ڈٹیل کلام کے نیچے درج ہے اور یہی غزلیات مشاعروں میں بھی پیش کر چکے ہیں ۔ جس سے عوام الناس میں بہت مقبول ہوئی ہیں ۔ پروفیسر جاوید عباس جاوید نظم اور غزل دونوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی غزل گوئی کی بات کریں تو فقط لطف و سرور تک ہی محدود نہیں رہتی اس کی غزل سے فکر کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ اُس سے سیراب ہونا ہر ایک قاری کے نصیب میں نہیں کیوں کہ اس کی وسعت و گہرائی میں پہنچنا قدرے مشکل ہے ۔ ان کی غزل گوئی میں بھرپور شعریت کے ساتھ ساتھ تصوف ایک خاص نظریات کے ساتھ اپنی آب و تاب کے ساتھ جھلک رہا ہے ۔ جس سے مفید ہونا ضروری ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر گُل عباس اعوان (پرنسپل گورنمنٹ کالج آف کامرس ۔ لیہ)

پروفیسر جاوید عباس جاوید کی غزل گوئی


کہتے ہیں جاوید عباس جاوید ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے پختہ گو شاعر ہیں ۔ ان کے خیالات ، مشاہدات اور تاثرات جب شاعری میں ڈھلتے ہیں تو ایک پُر لطف اور قابلِ تعریف کیفیت قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ انسانی وجود اور معاشرے سے متعلقہ اہم باتیں ، نو بہ نو الفاظ ، قوافی اور بحر کے لباس میں ملبوس ہو کر اپنی اہمیت سے آگاہ کر رہی ہیں ۔ اللّٰہ واحد کی ذات کے ادراک کے بعد ان کا دوسرا موضوع انسانیت ہے ۔ وہ عظمتِ آدم اور انسانی مقام نیز معاشرتی قدروں کے زوال پر بھی غمزدہ نظر آتے ہیں ۔ جاوید صاحب کی شاعری میں منظر نگاری اور لفظی تصویر کشی کا عنصر بہ خوبی پہچانا جاتا ہے اور ان کے مشاہدے کی گہرائی کا اندازہ ان کے اشعار کے پس و پیش پر غور کرنے سے ہوتا ہے ۔ ان کے کلام کو پڑھ کر ہر قسم کے فنی و فکری تجربات ذہن میں آتے ہیں ۔ ٫٫ راستے آساں ہوئے ،، کی اشاعت سے اس خطے کی اُردو شاعری کے ذخیرہ میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے ۔ ان کو اس تخلیق کی تکمیل پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
کرتے ہیں بے خودی میں ہر روز خود کلامی ۔۔۔۔۔۔ جاوید شاعری میں نادانیاں بہت ہیں
٫٫ راستے آساں ہوئے ،، (ص 8)
آخر میں مختلف غزلیات سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
***
اپنے ہونے پر بہت نازاں ہوئے
ہم بھی اپنے دور کے انساں ہوئے
***

سُنا ہے لوگ بستے ہیں پہاڑوں اور جھیلوں پر
ہمیں تو چین ملتا ہے فقط بھکر کے ٹیلوں پر
***
انساں کی زہر ناک قساوت کو دیکھ کر
سانپوں کی جستجو میں سپیرے نہیں رہے
***

زندگانی کا سفر دشوار تھا
بندگی سے راستے آساں ہوئے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں