اقبال حسین کی غزل گوئی
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
اقبال حسین طلہٰ منزل نزد شمالی ریلوے سگنل ، بھکر شہر کے رہائشی ہیں ۔ عصرِ حاضر میں غزل گوئی کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے منفرد لب و لہجہ کے ساتھ ساتھ غزل کو بامِ عروج پر پہنچایا ۔ ان کی غزل میں اساتذہ کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو کہ نئے غزل گو شعرا کے لئے مفید ثابت ہوا ہے ۔ خیالات کی بلندی ، روانی ، سلاست و بلاغت کا خیال بھی بھرپور رکھا گیا ہے ۔ اِن کی غزل کو اگر شہرہِ آفاق کہوں تو لفظ کم پڑتا ہے ۔ اِس سے کہیں آگے کی نوید سناتے ہیں ۔ جو قاری کو حشر تک اور خلد کی وہ سدا بہاریں جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گی ایسا پیغام مل رہا ہے ۔
اقبال حسین کے غزلیات کے مجموعوں نے بھرپور شہرت پائی ہے ۔ اِس کے بعد انہوں نے اپنی ہی حیات میں اِتمام کے نام سے تین کلیاتِ غزلیات شائع کر کے اہلِ ادب پر بڑا احسان کیا ہے ۔
اِتمام کلیات غزلیات جلد اول ستمبر 2016ء
اِتمام کلیات غزلیات جلد دوم جولائی 2018ء
اِتمام کلیاتِ سلام جلد سوم 2020ء
اور جلد چہارم کلیاتِ غزلیات غیر مطبوعہ ہے ۔
ڈاکٹر ناصر نئیر ( اورینٹل کالج ، پنجاب یونیورسٹی لاہور) اقبال حسین کی غزل گوئی کے حوالے سے کہتے ہیں ۔ اقبال حسین کا تعلق اگرچہ پنجاب کے ایک دور افتادہ شہر بھکر سے ہے مگر انھوں نے اپنی شاعری کو مقامی مشاعرہ پسند شعراء کی روش کی نذر نہیں ہونے دیا ۔۔۔۔۔۔ ان کی غزل معاصر اردو غزل کے سیاق میں پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے ۔ حق یہ ہے کہ اقبال حسین کی غزل معاصر اردو غزل گوؤں میں اپنی لفظیات ، اسلوب ، موضوعات کی پیش کش کے ماہرانہ انداز کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہے ۔ وہ ایک طرف غزل کے کلاسیکی رکھ رکھاؤ کلاسیکی شعریات کی روشنی میں لفظ کے بر محل استعمال اور لفظوں کی رعایتوں سے حسن کاری کا خیال اور سلیقہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف معاصر عہد کی حسیت کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں ۔ سب سے اہم بات ان دونوں میں توازن رکھنا ہے ۔ اقبال حسین کا احساس حسن اس توازن کو ممکن بنانا ہے ۔ باقی جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے ۔ وہ آج کے ہیں اور ہمارے اکثر غزل گوؤں کے یہاں مشترک ہیں ۔ اقبال حسین کی غزل کا اسلوب ہی جو نو کلاسیکی کہا جاسکتا ہے ۔ انھیں دوسروں سے الگ پہچان دیتا ہے ۔
اِتمام کلیات (غزلیات)جلد دوم فرنٹ فلیپ آخر میں ایک غزل ملاحظہ فرمائیں ۔
مجھے مٹانے تجاوز کے باب تک مت جا
اداسیاں ہی دیا کر عذاب تک مت جا
برسنے پر ہی بہر طور کر اُسے مائل
اٹھا کے پیاسی زمیں کو سحاب تک مت جا
میں کم نہیں ہوں تری بات کے سمجھنے کو
تو اہلِ بزم کی خاطر خطاب تک مت جا
ابھی ہے دیر طلب انتہا محبت کی
تو جلد بازی میں لُبِ لُباب تک مت جا
عداوتوں کو حقیقت تلک ہی رکھ محدود
مجھے نہ ملنے کی خواہش میں خواب تک مت جا
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔