زندگیا ں موت کی آغوش میں سو جاتی ہیں ،جوانی کے ہاتھ میں پیری کی لاٹھیاں آ جاتی ہیں ،بہارِ شباب گردشِ روزگار کی تپتی دھوپ میں خزاں رسیدہ ہو جاتا ہے،احساس کے اشکوں میں بہہ بہہ کے بینائیاں ختم ہو جاتی ہیں۔بدن کا رُواں رُواں تھکان کے بستر پر امیدوں کی کروٹیں بدلتا بدلتا آخری آرام گاہ سے جا لگتا ہے۔شب و روز کی تگ و دو،ماہ و سال کی محنتیں ، بے لوث محبتیں ،بےپایاں عقیدتیں، پُر خلوص دعائیں،پُر شکوہ التجائیں ،سب بے سود و بےکار چلی جاتی ہیں،ایک ذرا سی لغرش،ایک معمولی سی خطا اور ایک بے ضرر سی بھول پر جب آپ کا خلوص ،محبتیں ،عقیدتیں اور التجائیں سب کی سب آپ کے منہ پر مار دی جاتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ بھلے اپنے لہو کا قطرہ قطرہ بھی پلا دیں واور اپنے سکون کا لمحہ لمحہ بھی لٹا تو تب بھی یہ لوگ خوش نہیں ہوتے۔
ہاں یہ لوگ کبھی خوش ہو ہی نہیں سکتے ،میں سوچتی ہوں بھلا یہ لوگ ہیں کون ؟ہمارے عزیز ،ہمارے رشتہ دار، ہمارے والدین،ہمارے بہن بھائی،ہمارے دوست، محبتیں ،پڑوسی ،اولادیں اور ہمارے ساتھ کام کرنے والے ،یہی سب تو لوگ ہیں جن کے دائرہ اختیار میں رہ کر بھی ہم بے اختیار ہیں ،اور یہ بات تلخ ہے لیکن سچ ہے کہ زندگی میں چاہے کچھ بھی کر لوں لیکن ہر کسی کو کسی نہ کسی موڑ پر کسی نہ کسی بات پر آپ سے شکایت ضرور ہوتی ہے۔لیکن ہم یہ غلطی کر جاتے ہیں کہ ان کی شکایات مٹاتے مٹاتے ان کو مناتے مناتے ،صفائیاں دیتے دیتے اور ان کو خوش کرتے کرتے اپنی ذات کو کہیں کھو دیتے ہیں ،اپنی انا کی تذلیل کر دیتے ہیں ،اپنے وجود کو کہیں دفن کر دیتے ہیں ،لیکن پھر بھی لوگوں کو خوش نہیں کر پاتے ۔
یہ لوگ ہیں ،یہ انسان ہیں ،یہ کمزور ہیں،ان کے احساسات،جذبات،دعوے،وعدے سب وقتی سب فانی ہیں۔ان کو خوش کرنے کے چکروں میں اپنی ذات گنوانا ایک حماقت ہے ان کو خوش کرنے کی کوشش میں کسی ایسے چکر میں مت پھنس جایا کریں جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہو،کیونکہ ہم اکثر اپنی اور اپنے پیاروں کی خواہشات کو پورا کرتے کرتے اللہ کی حدوں کو پار کر جاتے ہیں ،ان کو مناتے مناتے اللہ کو ناراض کر جاتے ہیں اور پھر نہ ہم خود خوش رہ پاتے ہیں اور نہ لوگوں کو رکھ پاتے ہیں ۔
یاد رکھیے یہ لوگ کھبی اپنے رب سے راضی نہیں ہوتے توآپ سے کیا ہو پائیں گے۔بس جہاں تک ہو سکے ان کا بھلا کیجیے ۔ان کی تلخ باتوں کو بھلا دیجیے۔اپنی ذات کو مطمئن کیجیے اور اپنے رب کو راضی کیجیے۔۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔آپ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔