جمہوری اقوام کا شیوہ
24 نومبر کی کال کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔ اس کا اندازہ اسی وقت ہو گیا تھا جب اندرون خانہ کسی ڈیل کے ذریعے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی بیوی بشری بیگم اور ان کی بہن علیمہ خان کو جیل سے رہا گیا تھا۔ ایسے سیاسی احتجاج اور لانگ مارچ پہلے بھی ہوئے اور شائد آئندہ بھی تب تک ہوتے رہیں گے جب تک پولیٹیکل لیڈران، مقتدرہ اور عوام کا سیاسی شعور پختہ نہیں ہو جاتا ہے۔ جمہوریت عوامی رائے دہی اور منتخب نمائندوں پر مبنی نظام حکومت ہے جس میں اکثریتی جماعت کو حکومت کرنے کا حقال حاصل ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ یا چند سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ سے حکومت بنانے کا نظام ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارا سنجیدہ طبقہ پوچھتا ہے کہ ملک کو آخر کب تک میدان جنگ بنایا جاتا رہے گا۔ تحریک انصاف کی گزشتہ کال پر گو کہ اٹک، راولپنڈی اور اسلام آباد ہائی الرٹ پر تھے، ان شہروں میں دفعہ 144 بھی نافذ تھی اور تمام اطراف کے راستے بھی بند تھے، اس کے باوجود تحریک انصاف کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاج کی کال پر بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے کارکنان اسلام آباد پہنچے تھے اور آئی جی اسلام آباد کو اپنے ایک بیان میں کہنا پڑا تھا کہ موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے املاک کو نقصان پہنچانے کی مکمل اطلاعات موصول نہیں ہو رہی ہیں۔
گذشتہ لانگ مارچ میں صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی اور پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور حکومت کے لیئے درد سر بنے ہوئے تھے۔ اس سے قبل انہوں نے اسلام آباد اور لاہور میں کامیاب جلسے کیئے تھے۔ تب وہ اسلام آباد میں بھی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے نکلے تھے۔ حالانکہ ایک صوبے کے برسراقتدار وزیر اعلی کا اپنی مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیئے نکلنا، جلسے جلوس کرنا یا ملکی املاک وغیرہ کو نقصان پہنچانے کی تحریک دینا، ملک کے لیئے ایک انتہائی خطرناک اقدام تھا۔ لیکن یہ پاکستان ہے، نہ تو پاکستان امریکہ یا برطانیہ جیسا جمہوری ملک ہے اور نہ ہی اس کی عوام میں بنگلہ دیشی عوام جتنی بھی تنظیم ہے کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کا حامل ہو سکے۔ ایک سوال جو غیر جانب دار اور محب وطن عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کو قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی یہ عام الیکشن کا وقت ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے تسلسل سے جلسے جلوسوں کا ڈول ڈال رکھا ہے۔ عام لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر یہ حکومت کے خلاف احتجاج ہے تو اس کے کس اقدام کے خلاف ہے یا یہ احتجاج 9مئی کے مبینہ مجرمان کی رہائی کے لیئے ہے تو اس کا بنیادی مقصد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانا ہے تاکہ اس سے 9مئی کے دہشت گردانہ واقعات کے مبینہ طور پر ماسٹر مائنڈ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو جیل سے رہا کروایا جا سکے جس کی نگرانی فوجی عدالتیں کر رہی ہیں۔
تحریک انصاف کی موجودہ احتجاجی کال ایک پیچیدہ اور لایعنی سیاسی مشق تھی جس کا نتیجہ ملک میں افراتفری، غیر یقینیت اور معاشی بدحالی کی صورت میں نکلے گا کیونکہ اگر یہ احتجاج موجودہ حکومت کے خلاف ہو سکتا تھا تو پی ٹی آئی کو چاہئے تھا کہ وہ یہی احتجاج اسمبلیوں میں بیٹھ کر ریکارڈ کرواتی اور یا پھر وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف اسی طرز کی تحریک عدم اعتماد لے کر آتی جس طرح وزیراعظم عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم لے کر آئی تھی۔ اگر حکومت کے خلاف احتجاج کا یہ جمہوری طریقہ اختیار کیا جاتا تو اس سے سیاسی اصولوں کی بھی پاسداری ہوتی اور پی ٹی آئی و نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لے جانے کا حساب بھی برابر ہو جاتا۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں اس معاملے میں بداحتیاطی اور غیر جمہوری روایات سے کام لیتی آئی ہیں جس سے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
اس پر مستزاد حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے ہمیشہ غیرسنجیدہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں جیسا کہ گزشتہ احتجاج پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اسرائیل پی ٹی آئی کے ذریعے پاکستان پر حملہ آور ہے اور ان دہشت گردوں کا سربراہ تحریک انصاف کا سربراہ ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے ترجمانوں کا کہنا تھا کہ حکومت پرامن احتجاج کو پرتشدد بنانا چاہتی تھی اور اگر کسی کارکن کو کچھ ہوتا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوتی۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں بھی حکومتوں کے خلاف احتجاج ہوتا ہے اور جلسے جلوس بھی ہوتے ہیں مگر پاکستان کے سوا کسی دوسرے جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ملکی سلامتی اور مفاد کی قیمت پر احتجاج کیا جائے۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف کے ایک گزشتہ احتجاج کے دوران چین کے صدر پاکستان کے دورے پر تھے تو پی ٹی آئی اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دے کر بیٹھی تھی اور اس پھر ملائشیا کے صدر پاکستان کے دورے پر آئے تو پی ٹی آئی ایک بار پھر اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لیئے اسلام آباد پر حملہ آور ہوئی تھی۔
پاکستان کی سیاست میں موجود سیاسی لیڈران دنیا بھر کے جمہوری لیڈران کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی بے صبری اور عدم برداشت کا شکار ہیں کہ جونہی عام انتخابات ہوتے ہیں اول ان پر جانبداری اور دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں دوم جونہی کوئی حکومت قائم ہوتی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جسے اسمبلیوں میں حل کرنے کی بجائے سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔ سیاسی لیڈران کو چایئے کہ وہ وطن عزیز میں امن اور خوشحالی کی خاطر ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھیں۔ بہتر ہو گا کہ ملک میں نظام جمہوریت کو قائم رکھنا ہے تو آنے والی ہر نئی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے اور اپوزیشن جلسے جلوسوں اور املاک کو نقصان پہنچانے اور عوام کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی بجائے اپنے فرائض ایوانوں کے اندر رہ کر انجام دے کیونکہ تعلیم یافتہ، باعزت اور باشعور جمہوری اقوام کا یہی شیوہ ہے۔
Title Image by Syahdan Cahya Nugraha from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔