سرمد خان کا انقلابی قدم

سرمد خان کا انقلابی قدم

Dubai Naama

پچھلے دو دن شارجہ اور العین کے بک فیئرز اٹینڈ کرنے میں گزرے۔ اس سال بھی کتابوں کی دنیا میں داخلے کا یہ موقع محترم المقام سرمد خان صاحب نے فراہم کیا۔ متحدہ عرب امارات میں اردو زبان و ادب اور پاکستانی کلچر کے فروغ کا جو کام سرمد خان صاحب کر رہے ہیں اسے خراج تحسین پیش نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ یہ شارجہ بک فیئر کا آخری دن تھا جو شارجہ ایکسپو سنٹر میں 6نومبر تا 17نومبر 2024ء تک جاری رہا۔ اس کتاب میلے کا یہ 41واں ایڈیشن تھا جس میں سرمد خان کی زیر سرپرستی پاکستان نے دوسری مرتبہ شرکت کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ کہتے ہیں "دیر آید درست آید”، بے شک اس کتاب میلے میں کسی قابل فخر پاکستانی اردو لوور نے 38سال کے بعد پاکستان کی نمائندگی کو ممکن بنایا۔ لیکن اتنا تو ہوا کہ اردو کتابوں سے پیار کرنے والوں کی آنکھوں میں اردو کے لفظوں نے بلآخر رس گھولنا شروع کر دیا۔ متحدہ عرب امارات میں اس سے قبل اردو کتب کی نمائندگی شارجہ بک فیئر میں کسی پاکستانی پبلشر کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ آج میں قدرے مایوس تھا کہ اس دفعہ "اردو بکس ورلڈ” کے سٹال پر حاضری دینا رہ گئی۔ اچانک دن گیارہ بجے سرمد خان صاحب کی کال آئی تو امسال بھی کتابوں کا یہ میلہ دیکھنے کا میرا قلق امید میں بدل گیا۔

سرمد خان صاحب اردو کتابوں کی ترویج کی دیوانگی کی حد تک جو خدمات انجام دے رہے ہیں اسے "جنون” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان سے فون پر اکثر بات ہوتی رہتی ہے اور مجھے ان کے لہجے کا احساس ہے، وہ تیز تیز گفتگو کرتے ہیں، بلکہ مجھ سے تحکم کے انداز میں مخاطب ہوتے ہیں۔ انہوں نے گرجتے ہوئے کہا کہ آج حمزہ علی عباسی کا بھی پروگرام ہے آپ تیار ہو جائیں، جانا ہے۔ سرمد خان صاحب ایک دو اہم یا درجن بھر کتابوں کو خریدنے کے لیئے بھی لاہور، کراچی اور جہلم جا پہنچتے ہیں۔ ان کو "جہلم بک کارنر” سے خصوصی لگاو یے۔ ایک میلے میں جانے کی خوشی اور وہ بھی کتابوں کا میلہ ہو، چند منٹوں بعد ہم دبئی کے خلیج روڈ سے شارجہ کی طرف مڑ گئے، راستے میں ہم نے صبا کو پک کیا اور جب ہم شارجہ ایکسپو سنٹر پہنچے تو پونے بارہ بج رہے تھے۔ کچھ وقت "اردو بکس ورلڈ” کے سٹال پر گزرا اور پھر وہ مجھے صحافیوں کے کانفرنس حال میں لے گئے جہاں ایوارڈز کی تقسیم ہونا تھی۔ ابھی تقریب شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ کچھ دیگر ممالک کے بک سٹالز کا وزٹ کیا جائے۔ آج اتوار تھا اور چھٹی کی وجہ سے کتاب میلہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ خواتین اور بچوں کا بہت رش تھا، ایک دو جگہ مقامی رقص اور گیتوں کی محفل بھی جمی ہوئی تھی۔ جب ہم مصری بک سٹال پر پہنچے تو وہاں مصنف یاسر البحری اپنی دستخط شدہ کتب اپنے قارئین کو دے رہے تھے۔ ان سے گزشتہ سال 2023ء میں بھی ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں پہچان لیا اور اپنے ساتھ خود ہی سیلفی بنانے کی آفر کی۔ اسی دوران ہمیں "شارجہ پبلشنگ سٹی، فری زون” کا ڈیسک نظر آیا، جہاں ہم کچھ دیر کے لیئے رکے تو پتہ چلا کہ وہ آج کے روز نئی کمپنی رجسٹر کرنے والوں کو خصوصی ڈسکونٹ دے رہے تھے۔

اسلامی دنیا میں یورپ کی طرز پر "احیائے علوم کی تحریک” کی بنیاد رکھنا میرا دیرینہ خواب تھا، بلند و بالا اور گہرے خواب یاد رہتے ہیں، میں شروع دن سے سوچ رہا ہوں کہ جب تک مسلمانوں میں علمی آگہی پیدا نہیں ہوتی اور تحریر و تحقیق کا کام دوبارہ شروع نہیں ہوتا مسلم دنیا کا کبھی احیاء ممکن نہیں ہو گا۔ شارجہ سٹی کے پورٹل پر محکمہ ھذا کے ڈائریکٹر سیف ال سویدی اور ان کا عملہ موجود تھا۔ تین سال پہلے سرمد خان صاحب "اردو بکس ورلڈ” کی کمپنی میں میرا نام ڈالنا چاہتے تھے مگر بوجوہ میں نے رضامندی ظاہر نہیں کی تھی۔ شائد اس وجہ سے کچھ عرصہ ہمارے درمیان دوریاں بھی پیدا ہو گئی تھیں۔ جب سرمد خان نے نئی کمپنی فارمیشن میں میری دلچسپی کو محسوس کیا تو انہوں نے ڈیسک پر موجود ہیڈ آف انویسٹرز افرا السوادی اور سیلز ٹیم لیڈر رانا گامئیل کو آواز دی۔ ابھی میں نئی کمپنی کا نام سوچ ہی رہا تھا کہ سرمد خان نے اپنے کارڈ سے "اردو ریسرچ بکس” کے تمام اخراجات کی ادائیگی بھی کر دی اور اس کمپنی کے تمام اختیارات بھی مجھے سونپ دیئے۔

اردو بکس ورلڈ کے سٹال پر چند لمحوں بعد ہم دوبارہ پہنچے تو وہاں قصہ قبلتین (سفر نامہ) کے مصنف محمد صائم اور ان کا بارہ سالہ بیٹا ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا یہ کم سن بیٹا بھی "ڈائنوسار” نامی ایک کتاب کا مصنف ہے۔ محمد صائم کے والد محترم شیر افگن خان جوہر نے بھی سیرت النبی ﷺ پر "سید المبشرین” کے عنوان سے
کتاب لکھی تھی۔ ابھی یہ اظہاریہ قلم بند کر رہا تھا تو صائم کا فون آیا کہ تبصرہ کے لیئے کل وہ یہ کتاب مجھے پہنچا دیں گے۔ محمد صائم کی چچی ثمینہ تبسم جو کینیڈا میں مقیم ہیں وہ بھی اچھی مصنفہ ہیں جنہوں نے "دیوار گریہ سے غزہ کی دیوار تک” کے عنوان سے سفرنامہ تحریر کیا ہے۔ صائم سے ابھی میری گفتگو جاری تھی کہ سرمد خان صاحب نے مجھے حمزہ علی عباسی کا پروگرام کوور کرنے کا حکم دے دیا جو آڈیٹوریم ہال میں تب تک شروع ہو چکا تھا۔ جب میں پہنچا تو وصی شاہ صاحب سامعین کی فرمائش پر اپنی مشہور زمانہ نظم "ہاتھ کا کنگن” سنا رہے تھے۔ اس کے فورا بعد انہوں نے حمزہ علی عباسی کو سٹیج پر بلایا اور ان کی کتاب "ایمان اور دریافت ذات” پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اس پروگرام کا انعقاد "بزم اردو” نے کیا تھا۔ یہ آڈیٹوریم ہال بھی سینکڑوں سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ حمزہ علی عباسی نے اپنے روحانی ارتقاء کے بارے میں بتایا کہ وہ ذات باری تعالی پر اٹھائے ہوئے اپنے تشکیک پر مبنی مختلف سوالات کے ذریعے کس طرح دین کی طرف راغب ہوئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اداکاری کے دوران وہ انتہائی سخت اور مغرور طبیعت رکھتے تھے مگر بعد میں جب انہوں نے احکامات خداوندی کو خود پر عملی طور پر لاگو کیا تو ان کے اندر عاجزی اور انکسار پیدا ہوتا چلا گیا۔

یہ پروگرام بڑا معلوماتی اور دلچسپ تھا مگر میرے دونوں فون سیٹس کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی۔ میری یادداشت اتنی اچھی نہیں لھذا میں نے اپنے دونوں فونز میں "کلر نوٹ” ڈاؤن لوڈ کر رکھے ہیں۔ جب فون بند ہوئے تو میں نے واپس اردو بک سٹال پر جانے میں عافیت سمجھی۔ تب تک رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سرمد خان کے ساتھ تین اور خان بھی کتابوں کو پلاسٹک کے لفافوں اور گتے کے کارٹنوں میں بند کر رہے ہیں۔ یہ 12 گھنٹے کی معیت کافی نہیں تھی۔ ان کے ساتھ کتابوں کی گٹھڑیوں کو ابھی سٹور میں بھی رکھنا تھا۔ حتی کہ ہم نے ڈیرا دبئی فرج مرار میں صبح دو بجے آ کر ڈنر کیا۔

اگلے دن گیارہ بجے ہم دبئ میں سرمد خان کی رہائش گاہ ریگا روڈ پر دوبارہ اکٹھے ہو گئے جہاں حسب معمول مہمانوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔ ان کا تین بیڈ روم کا یہ غریب خانہ اچھا خاصا مہمان خانہ ہے۔ کتاب میلوں کے موسم میں سرمد خان صاحب پاکستان سے ہر سال آدھی درجن نہیں تو تین چار صحافی دبئی اپنے پلے سے منگواتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ان کے مہمانوں میں آمنہ مفتی، عامر ہاشم خاکوانی، محمد فاروق چوہان، علامہ عبدالستار عاصم اور اشرف شریف بھی شامل رہے ہیں۔ اس دفعہ بھی ان کے گھر پر کافی مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم چند خواتین و حضرات سے یاد اللہ کر کے دوبارہ شارجہ نکل گئے۔ وہاں سرمد خان نے کتابوں کے بنڈلوں کا دوبارہ جائزہ لیا، ورکروں کے ذمہ کچھ کام لگائے اور ہم العین کی طرف نکل گئے۔ انہوں نے ایک دوست کو فون کر کے کسی اچھے اور ذائقہ دار ریسٹورنٹ کا پتہ پوچھا جو ایک پہاڑی کے پہلو میں ڈرائیونگ سکول کے سامنے تھا۔ صبح کا ناشتہ نہ کیا ہو اور دوپہر کا کھانا اور ناشتہ اکٹھا کیا جائے تو اسے "برنچ” کہتے ہیں۔ ہماری ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے سینئر صحافی عارف شاہد اور میرے پیٹ میں چوہے ناچ رہے تھے، چوہے تو سرمد خان کے پیٹ میں بھی ناچ رہے تھے۔ لیکن جب ہم تینوں نے ریسٹورنٹ کا نام پڑھا تو چونک گئے جس کے سائن بورڈ پر "ریسٹورنٹ 71” لکھا تھا۔ ابتداء میں تو سوچا کہ یہ کسی بنگالی کا ریسٹورنٹ ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ کھانا زہر مار ہونے سے بچ گیا۔ اس کا مالک ایک لوکل تھا۔ کھانے کا ٹیسٹ بہت اچھا تھا۔ منیجر نے نام کی وجہ تسمیہ مسکراتے ہوئے یہ بتائی کہ نام نہیں مل رہا تھا تو کمپیوٹر نے یہ نام ظاہر کیا اور ہم نے "ڈن” کر دیا۔ یوں شروع میں ہمارا جو "تراہ” نکلا تھا ہنسی میں بدل گیا۔

العین کتاب میلے کا یہ دوسرا دن تھے۔ پہلے ہم ایک بلڈنگ کے سیکنڈ فلور پر بک فیئرز کے مصری منیجر ابراہیم سے جا کر ملے۔ راستے میں عارف شاہد صاحب نے سرمد خان سے گلہ کیا تھا کہ آپ پاکستان سے صحافی بلا کر انہیں نوازتے ہیں مگر "ہم” آپ کو نظر ہی نہیں آتے۔ ابراہیم صاحب کے عملے نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس کافی فنڈز ہوتے ہیں۔ اس وقت تو سرمد صاحب خاموش ہو گئے مگر جاتے ہی انہوں نے ابراہیم صاحب کو کہا کہ پہلے وہ ان دو صحافیوں کی رجسٹریشن کریں۔ اس کے بعد اگلے کتاب میلوں کے لیئے انہوں نے کچھ پاکستانی صحافیوں کے نام بھی دیئے جن کی رجسٹریشن کے بعد امارات کی سرکار انہیں ویزہ، ٹکٹ اور ہوٹل وغیرہ مفت دے گی۔ ہم نے کتاب میلہ دیکھا۔ رات کے نو بج رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی سرمد خان نے خوش خبری سنائی کہ آئندہ متحدہ عرب امارات میں شارجہ، شیخ زید سٹی، العین یا ابوظہبی میں کسی بھی میلے کی کوریج کے لیئے آپ کو فی دن کے 1200درہم ملیں گے۔

یہ خوشخبری سننے پر ہم دونوں بہت خوش تھے مگر رات گیارہ بجے جب سرمد نے گاڑی دوبارہ شارجہ کی طرف موڑنے اور وہاں پڑی کتابوں کو ٹرک میں لوڈ کرنے کا مرثیہ سنایا تو ہماری خوشی اسی طرح غم میں بدل گئی جیسے آسٹریلین گلورہ کائلی مائینوگ "مرڈر اون ڈانس فلور” گاتی ہے۔

میں اندر سے پھر بھی خوش تھا۔ ہم تب تک نہیں سدھریں گے جب تک ہم علم اور تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بناتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میں "نشاتہ ثانیہ” کے لیئے تحریک احیائے علوم ہی کو اس کا واحد حل سمجھتا تھا۔ حتی کہ تحقیق کے زریعے دینی تعلیمات اور عقائد کو بھی سائنس کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بقول سرمد خان انہوں نے یہ ایک قدم اٹھایا ہے۔ اربوں میلوں کا سفر بھی پہلا ایک قدم اٹھانے سے مکمل ہوتا ہے۔ خدا جانے یہ "انقلابی سفر” کس کے ہاتھوں مکمل ہو گا؟ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔”

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

حسن نصیر سندھو:طنز و مزاح کا ایف 16

بدھ نومبر 20 , 2024
حسن نصیر سندھوطنزیہ و مزاحیہ تحریریں لکھتے ہیں بہت اچھا لکھتے ہیں آپ کی تحریر قارئین کے چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہے
حسن نصیر سندھو:طنز و مزاح کا ایف 16

مزید دلچسپ تحریریں