جنوبی وزیرستان کے ایک چھوٹے سے گاوں میں دو دوست اجو اور نجو رہتے تھے۔ پورا گاوں دونوں کی دوستی کی مثالیں دیتا تھا۔ اجو وطن سے بہت محبت کرتا تھا اسے پی ٹی وی پہ آنے والے سارے ملی نغمے زبانی یاد تھے جو کہ وہ اپنے دوستوں کو اکثر سناتا رہتا تھا۔ وہ وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے گاوں سے پاک فوج کے جتنے قافلے دہشت گردوں کے خلاف اپریشن کے لیے گزرتے تھے۔وہ ان کے استقبال کے لیے کچی سڑک پر کھڑے ہو کر ان کو سلیوٹ کرتا تھا۔ فوجی بھائی بھی اس بچے کا جزبہ دیکھ کر اس کو سلیوٹ کا جواب دیتے تھے۔
ایک دن اجو اور نجو کھیل میں مصروف تھے کہ دو فوجی ان کے پاس سے پیدل گذرے جن کی ہاتھوں میں بندوقیں تھیں اور کندھوں پر وائرلیس سیٹ رکھی ہوئی تھیں جن کے اوپر انٹینے لگے ہوئے تھے۔ جن میں سے ایک فوجی وائرلیس پر کسی کو کہہ رہا تھا کہ ہم انشاءاللہ کل صبح چھ بجے کیمپ سے نکلیں گے۔ اور ہم نے اگلے پہاڑ بھی دہشت گردوں سے پاک کرنے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے فوجی آگے نکل گئے۔ لیکن نجو کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ اس نے کھیل چھوڑا اور پہاڑ کی طرف بھاگ گیا۔ یہ بات وطن سے پیار کرنے والے اجو کو کھٹکی اور اسکو ڈرا رہی تھی اس لیے اس نےنجو کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ بھاگتے بھاگتے وہ تھک گیا اور سانس بحال کرنے کے کیے بیٹھ گیا ۔اچانک اسکو سرگوشیوں کی آواز آئی ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ کل صبح چھ بجے فوجیوں کا قافلہ گزرے گا۔ اور یہ بات اجو کا دوست نجو کچھ لوگوں کو بتا رہا تھا وہ لوگ بھی بندوقیں اٹھائے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ صبح فوجیوں کی گاڑیاں آنے سے پہلے راستے پر ٹائم بم نصب کردو۔ نجو اور اس کے دہشت گرد دوستوں نے ٹائم بم لگانے کا وعدہ کیا اور بیٹھ کر سگریٹ میں چرس ڈالنے لگے۔
اجو نے ساری بات سنی اور گھر کی طرف واپس دوڑا۔ گھر پہنچ کر وہ بے چین ہو گیا کہ اس کا دوست غدار ہے اور پاک فوج کے دشمنوں سے ملا ہوا ہے۔ لیکن یہ بات وہ فوجیوں کو کس طرح بتائے۔اس بات کی فکر اسے کھائے جا رہی تھی۔ آخر اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا۔ساری رات اسے نیند نہیں آ رہی تھی آخر اس نے کاغذ پر لکھا:-
"پیاری امی جان ! آج میں ان کی جان بچانے جا رہا ہوں جو سب اہل وطن کی جان بچاتے ہیں اگر بچ گیا تو واپس آ جاوں گا اگر شہید ہو گیا تو جنت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ملیں گے۔ خدا حافظ۔ پاک فوج زندہ باد
کاغذ کا ٹکڑا سرہانے کے نیچے رکھا اور صبح کا انتظار کرنے لگا۔ گاوں کے موذن نے صبح کی اذان دی تو مسجد میں جا کر نماز پڑھی۔نماز پڑھنے کے بعد گاوں کی کچی سڑک کی طرف بھاگ کر گیا جہاں دہشت گرد ٹائم بم فکس کر رہے تھے۔ اجو ٹائم بم سے تقریبا سو میٹر دور جنگلی جھاڑیوں میں چھپ کر سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ دہشت گرد ٹائم بم نصب کر کے پہاڑی کے اوپر کی طرف چلے گئے اور ایک پتھر کی آڑ میں جا کر بیٹھ گئے۔
اجو کی نظریں اس طرف تھیں جس طرف سے فوجی قافلے نے آنا تھا۔ جلد ہی اسے دور پہاڑی پر دھول اڑتی ہوئی دکھائی دی تو اس نے شکر کا کلمہ پڑھا کیونکہ آج اس نے محافظوں کی جان کو بچانا تھا۔ آہستہ آہستہ فوجی گاڑیاں اجو کی طرف آ رہی تھیں۔ جب ایک فرلانگ کا فاصلہ رہ گیا تو اجو نے فوجی گاڑیوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔فوجی گاڑیاں بچے کو دیکھ کر رک گئیں اور فوجی اتر کر دائیں بائیں زمین پر لیٹ گئے اجو مسلسل چلا رہا تھا کہ سڑک پر ٹائم بم نصب کیا گیا ہے۔دہشت گرد پہاڑی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے اجو کے اوپر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اسی دوران ٹائم بم پھٹ گیا اور فوجی اجو کی دلیری اور عقلمندی کی وجہ سے بچ گئے۔ لیکن اجو شہادت کے بلند درجے پر فائز ہو کر پوری قوم کا ہیرو بن گیا تھا۔
دہشت گردوں پر فوجی جوانوں نے ببر شیروں کی طرح حملہ کیا اور غدار نجو سمیت سب کو مار دیا۔ اور وطن کے وفادار اجو کے کارنامے کو آج بھی فوج اور قوم یاد کرتی ہے۔ہر سال اجو کی قبر پر فوج آ کر سلامی دیتی ہے اور اس کے لیے اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔ اجو نے جو خط اپنی ماں کی طرف شہادت سے پہلے لکھا تھا پورے گاوں کو سنایا جاتا ہے اجو کا سارا گاوں آج بھی اجو پر فخر کرتا ہے۔سچ ہے کہ ملک و قوم کے لیے ” جانبازی میں عزت ہے”۔
سید حبدار قائم آف اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔