کتب بینی کے فوائد
ان دنوں شارجہ میں کتاب میلہ جاری ہے جس میں گزشتہ برس کی طرح سرمد خان نے "اردو بکس ورلڈ” کا سٹال لگایا ہوا ہے۔ مصروفیت کی وجہ سے ابھی تک اس بک فیئر میں حاضری نہیں دے سکا۔ سوچا کہ مطالعہ کتب کے حوالے سے ایک اظہاریہ لکھ دوں تو کچھ ازالہ ہو جائے گا۔
کتب بینی کا شوق اپنی ذات سے محبت جیسا جذبہ ہے کیونکہ مطالعہ سے قاری کو اپنی شخصیت کے ان پہلووں میں بھی جھانکنے کا موقع ملتا ہے جس سے وہ پہلے آگاہ نہیں ہوتا یے۔ یہ فرض کر لیا جائے کہ انسان کے اندر "علم کل” مدفن ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ لیکن اس تحت الشعوری علم سے استفادہ اسی صورت میں ممکن ہو پاتا ہے جب حصول علم، تجربے، غلطی یا مثبت صحبت وغیرہ سے اسے بیدار کیا جاتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ قاری کو اسی دنیا سے دوسروں کے تخیل اور تجربے کے ذریعے متعارف کرواتا ہے۔
گویا کتب کا مطالعہ انسان کی ذاتی دریافتوں کا عمل پے۔ لھذا کتابوں کے مطالعہ کے شوقین لوگ جو کتب بینی کے اس فیض سے استفادہ کرتے ہیں وہ کتابوں سے بھی اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی وہ اپنی ذات سے کرتے ہیں۔
ایوارڈ یافتہ عراقی مصنف علی الحدیثی کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب اسے مکان مالک نے گھر خالی کرنے کا حکم دیا تھا تو انہوں نے ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے تھے کہ، "ایک بار پھر میری کتابوں کی گٹھڑی بندھنے کو ہے، یہ میری ساتویں ہجرت ہے۔ جس کے پاس اپنی چھت نہ ہو، اسے کتابیں رکھنے کا کیا حق ہے؟ کتابیں تو محبوبہ کی مانند ہوتی ہیں، اور محبوبہ ہمیشہ اپنی ملکیت میں رہنا چاہتی ہے، اسے کرائے پر رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ کرایہ دار کا نہ کوئی اپنا وطن ہوتا ہے، نہ کوئی اپنی لائبریری ہوتی ہے۔”
جنگ عظیم دوم کے ہیرو اور انگلینڈ کے سابق وزیراعظم چرچل ہل کو کتب بینی کا بہت شوق تھا۔ ان کا ایک مضمون ہمارے نصاب میں بھی شامل تھا جس میں وہ اپنی پسندیدہ مگر کتابوں کی فالتو گٹھڑی کو رات کے اندھیرے میں دریائے تھیمز میں پھیکنے کے لیئے لاتے ہیں۔ جب چرچ ہل کتابوں کو پھینکنے لگتے ہیں تو عین آخری لمحے انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتابیں پانی میں پھینکنے سے ان کے جسم سے ان کی روح بھی پانی میں گھل جائے گا، جس وجہ سے وہ کتابوں کی اس گٹھڑی کو واپس گھر لے جاتے ہیں۔
لندن میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ جب لائبریری کی کوئی کتاب مجھے پسند آ جاتی تھی تو میں اسے واپس کرنے کی بجائے لائبریرین کو اس کی قیمت جمع کروا دیتا تھا۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا تھا کہ دو چار کتابوں کی قیمت جمع کروانے پر لائبریری انتظامیہ کو مجھ پر شک گزرتا تو وہ مجھے ممبرشپ ختم کرنے کی وارننگ جاری کر دیتے تھے۔ میں اس صورت میں عموما لائبریریاں تبدیل کرتا رہتا تھا۔ میں ایسٹ لندن کی تقریبا ساری لائبریریوں مثلا والتھم سٹو، سٹریڈ فورڈ، لیٹن، لیٹن سٹون اور الفورڈ وغیرہ کا ممبر تھا۔ لیٹن سٹون میں واقع میرا کمرہ قیمت دے کر ان چوری شدہ کتابوں کی ایک چھوٹی لائبریری کا منظر پیش کرتا تھا۔ واپس پاکستان آنے لگا تو میں وہ ساری کتب بوجوہ پاکستان نہ لا سکا۔ زندگی میں اور بھی بہت نقصان ہوئے مگر ان کتابوں کے کھونے کا مجھے آج بھی قلق ہے۔ میں عموما اپنی کتابیں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ کتاب کا مطالعہ کرتے وقت مجھے جو لائنز پسند آ جائیں انہیں انڈر لائن کر لیتا ہوں اور جب بھی وقت ملتا ہے ان لائنز کو دوبارہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے ایسا لگتا ہے میری روح اندر اور باہر کی ایک پوری دنیا گھوم آئی ہے۔
کتابیں عموما دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جو آپ کو بدل دیتی ہیں اور دوسری وہ جو آپ کو بدلتی تو نہیں مگر آپ کو جگا دیتی ہیں۔ ان دونوں قسم کی کتابوں کا کمال یہ ہے کہ آپ بدل جائیں یا جاگ جائیں تو آپ پہلے سے بہتر انسان کے روپ میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ چونکہ کتب بینی آپ کے علم میں اضافہ کرتی ہے جس سے آپ کو اچھے اور برے کی پہچان ہونے لگتی ہے، آپ میں برداشت پیدا ہوتی ہے اور آپ کے اندر صبر و تحمل پیدا ہونے لگتا ہے۔ تواتر سے کتب بینی آپ میں نظم و ضبط اور سنجیدگی یعنی میچوررٹی پیدا کرتی ہے۔ ایک کتاب عموما ایک کہانی یا ایک موضوع کا احاطہ کرتی ہے جس سے آپ کو زندگی کی جذیات کی سمجھ آنے لگتی ہے۔
آج کے انسان کا مسئلہ وقت کی کمی ہے۔ کتب بینی کے لیئے وقت نہ بھی نکلتا ہو تو کوئی نہ کوئی آن لائن تحریر ضرور پڑھنی چایئے۔ ایک اچھی تحریر موضوع اور مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر آپ کا نقطہ نظر تبدیل کرتی ہے یا واضح کرتی ہے۔ اس پر مستزاد مطالعہ سے آپ کے دماغ میں تحریر سے متعلقہ یا بلکل ہی نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں جس سے آپ کے دماغ کا تخلیقی حصہ بیدار ہونے لگتا ہے۔ آپ کتب بینی کا شوق پیدا کریں آپ کبھی بوڑھے نہیں ہونگے، آپ کی یادداشت بہتر ہوتی ہے اور دماغ بہتر طریقے سے کام کرتا ہے۔ انفرادی تحریر کے مقابلے میں کتب پر حاشیہ لگانا آپ کے لاشعور میں بھی ثبت ہو جاتا یے اور زندگی کے کسی موڑ پر جب اس سے ملتی جلتی صورتحال پیدا ہو جائے تو آپ کا لاشعوری ذہن آپ کی بہتر رہنمائی کرتا ہے۔
مطالعہ کا میرا طریقہ واردات یہ ہے کہ میں عموما سونے سے پہلے تحریریں، کالمز اور مضامین وغیرہ پڑھتا ہوں اور جب سو جاتا ہوں تو میرا دماغ نیند میں بھی نفس مضمون، کرداروں اور الفاظ وغیرہ کی چھان بین کرتا رہتا ہے جس سے زندگی کے بارے میرا نقطہ نظر ارتقاء کرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ میں نے جب سے مطالعہ کا یہ طریقہ اپنایا ہے میں مشکلات میں گھبراتا نہیں ہوں، مسائل کے حل کے لیئے مجھے زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑتی اور ذہن میں روز نئے اور اچھوتے خیالات آتے ہیں۔
کتب بینی اور مطالعہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کا بچا ہوا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا یے اور وقت کا صحیح استعمال ہی زندگی ہے۔
مطالعہ کے لئے کتابوں اور موضوعات کا انتخاب احتیاط سے کرنا چایئے۔ ہمیں معلوم ہونا چایئے کہ کون سی کتابیں پڑھنی ہیں۔ کیونکہ کچھ کتابیں بھی زہر کی مانند ہوتی ہیں۔ خود کو کسی بھی ایک نظریئے کے ساتھ باندھ لینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے خلاف کچھ نہیں پڑھ سکتے۔ یہ ایک خوفناک بات ہے۔ کتاب کا مطالعہ آپ کے ذہن کو کھولتا ہے ناکہ وہ بند کرتا ہے۔
ژاں پال سارتر کہتے ہیں کہ "میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی سیکھا ہے، سب کتابوں ہی کی دین ہے۔” ہم بعض دفعہ عقلی طور پر جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حقائق سے آشنا ہو کر منطقی نتائج اخذ کرنے کے لیئے کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ اسی لئے ہمارے اساتذہ کہتے ہیں کہ کتابوں کا مطالعہ کیجئے یا جس موضوع سے شغف ہو، اس موضوع کی متعلقہ تمام کتابوں کو پڑھیں۔
ایک مفکر الجاحظ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ” کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔”
اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جو زندگی کے معیار کو بہتر بناتی ہے۔ ان کتابوں کو بھی پڑھیں جن پر پابندی لگ چکی ہے ان لوگوں سے ملیں جن کو معاشرہ برا کہتا ہے ان جگہوں پر جائیں جہاں جانا منع ہے یہ چیزیں آپکو مضبوط بنائیں گی۔ کتابیں معاشرے کے بنے راستوں سے ہٹاتی ہیں، آپکو ایسے تجربات سے آگاہ کرتی ہیں جن کے متعلق معاشرہ آپکو آگاہ نہیں کر سکتا یے۔
مذہبی معاشروں میں فلسفہ اور تحقیقی کتابیں پڑھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے مگر یہ کتابیں انسان کے علمی معیار کو ترقی کی منازل طے کروانے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ کتابیں اِن سوالات سے آشنا کرتی ہیں اور ان کے جواب دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ علم کی حقیقیت کیا ہے؟ علم کا سرچشمہ کہاں ہے؟ دائرہ علم کی حد کیا ہے؟ نقصان دہ کیا ہے؟ یہ سوالات ہر قوم کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم نے علم کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھنے اور پرکھنے پر زور دیا ہے۔ جس وجہ سے انسان کے شعور سے آشنائی کا ذریعہ صرف کتابیں قرار پائی ہیں، جو علم کا مرکز و محور ہیں. انسان جب پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ سب کچھ پڑھنا چاہتا ہے جس کی مثال اس اہرام کی سی ہے جو نیچے سے بہت بڑا ہوتا ہے مگر اوپر جا کر ایک نوک کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح کچھ کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں شروع میں سب کچھ پڑھا جاتا ہے مگر وہ آہستہ آہستہ سمجھ میں آتا ہے۔
کتابیں صرف انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ علم کا خزانہ بھی ہیں۔ مشہور شاعر شیلے کہتے ہیں کہ مطالعہ ذہن کو جلا دینے اور اس کی ترقی کیلئے بہت ضروری ہے۔ جبکہ "ابراہیم لنکن” کا کہنا ہے کہ کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے۔ "والٹیئر” کا قول ہے کہ وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں۔ کتابوں کی سیاحت میں انسان شاعروں، ادیبوں، مفکروں اور داناؤں سے ہم کلام ہوتا ہے، جبکہ عملی زندگی میں عام طور پر احمقوں اور بے وقوفوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بقول شخصے اگر آپ مہینے میں ایک دو کتابیں پڑھیں اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں پڑھنا شروع کریں تو ستر سال کی عمر تک آپ ایک ہزار کے قریب کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے بیش تر لوگوں کے لئے یہ تسلسل اور تواتر قائم رکھنا مشکل ہے کیونکہ دوسرے کام بھی کرنا ہوتے ہیں۔ لہٰذا زندگی میں زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کرنے کا ٹارگٹ رکھنا چایئے۔ کتابوں کے موضوعات اور مصنفین کا انتخاب بھی احتیاط سے کرنا چایئے جو مثبت ہو اور آپ کے مقصد حیات کے قریب تر ہو۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ کتابوں کے مطالعہ کا شوقین ایک شخص سمندری جہاز میں ایک کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوتا ہے۔ اچانک سمندر میں طوفان آ جاتا ہے اور جہاز ڈوبنے لگتا ہے۔ شپ میں سوار سارے لوگ رونے اور آہ و بقا کرنے لگتے ہیں۔ ایک شخص کتاب کے مطالعہ میں مصروف آدمی سے کہتا ہے، "سارے لوگ مرنے جا رہے ہیں اور آپ سکون سے کتاب کیوں پڑھ رہے ہیں؟” اس پر کتاب کا قاری جواب دیتا ہے کہ، "اگر مجھے معلوم ہے کہ تھوڑی دیر بعد میں مرنے جا رہا ہوں تو میں اپنا وقت کتاب پڑھ کر اپنی روح کو ترقی دینے کی بجائے آہ و فغاں میں کیوں ضائع کروں۔”
مطالعہ میں گزرنے والا وقت گزرتا نہیں بلکہ تھم جاتا ہے، آپ زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتے، کامیابیاں سمیٹنا چاہتے ہیں اور خوش و مطمئن گزارنا چاہتے ہیں تو مطالعہ کی عادت اپنائیں، آپ کی زندگی کا حسن نکھرنے لگے گا اور آپ پہلے سے بہتر انسان بننے لگیں گے کیونکہ مطالعہ انسان کو آگاہی فراہم کرتا ہے اور ہمیں اس دنیا کی سیر کرواتا ہے جہاں ہم پہلی بار داخل ہوتے ہیں۔
Title Image by Pexels from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔