کہانی کار: سید حبدار قائم
سارے بچے سکول میں اساتذہ سے بہت سیکھتے تھے۔ لیکن باسط ان میں سب سے زیادہ باتیں سیکھتا تھا۔ بچوں کی کردار سازی کے لیے اساتذہ حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی جو بات بھی سناتے تھے باسط یاد کر لیتا تھا اور اس پر عمل کرتا تھا۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ ہمارے نبی پاک حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے جو بات بھی بتائی ہے وہ سچی ہوتی ہے۔
جمعہ کا دن تھا۔ باسط کو جمعہ پڑھنے کے لیے اپنے گھر سے چھ کلو میٹر دور جانا پڑتا تھا۔ اس دن باسط کے اردو کے استاد نے بتایا تھا کہ ہمارے نبی پاک نے میانہ روی کا حکم دیا ہے۔ باسط نے اپنے استاد سے پوچھا کہ میانہ روی کا کیا مطلب ہے؟ تو اس کے استاد نے جواب میں ایک واقعہ اس طرح سنایا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خانہ ء کعبہ کی دیواروں کی مرمت کا کام جاری تھا جس میں بہت سارے قبائل حصہ لے رہے تھے مرمت کے کام کے بعد جب حجرِ اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں جھگڑا پیدا ہو گیا کیوں کہ ہر قبیلہ حجرِ اسود کو اپنے ہاتھ سے نصب کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس مسئلے نے نازک صورتِ حال پیدا کر دی تھی۔ سب قبیلوں میں اختلافات بڑھ گۓ اور ایک بڑی جنگ کے آثار پیدا ہو گۓ ایسی صورت حال میں ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا وہ جو بھی فیصلہ کرے گا اس کا فیصلہ قبول کر لیا جائے گا۔
چناں چہ اگلے دن کی صبح کا انتظار کیا گیا دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہوا وہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ آپ کو دیکھ کر سب نے یک زباں ہو کر کہا کہ
"امین آ گیا ! اب حجرِ اسود نصب کرنے کے لیے جو فیصلہ حضور کریں گے ہمیں قبول ہوگا”
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی ساری بات سن کر اپنی چادر زمین پر بچھا دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس پر حجرِ اسود رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں کو چادر پکڑنے کا حکم دیا۔ اس طرح تمام قبائل کے سرداروں نے چادر پکڑ کر حجرِ اسود والی چادر کو اس جگہ پر رکھا جہاں حجرِ اسود نصب ہونا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ اس طرح ایک بڑی لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی اور سب قبیلوں کی خواہش بھی پوری ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حُسنِ تدبیر کا نتیجہ تھا۔ اس واقعہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر پینتیس سال تھی۔
تاریخ میں یہ واقعہ ”واقعہ ء تحکیم “ کے نام سے جانا جاتا ہے
باسط کو یہ واقعہ سنا کر استاد نے کہا کہ یہ میانہ روی کی بہترین مثال ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ایسا درمیان والا راستہ اختیار کرنا جس سے کسی مسئلے کا بہترین حل نکل آئے باسط کو یہ بات سمجھ آ گئی تھی۔ جب وہ اپنے گھر سے جمعہ پڑھنے کے لیے نکلا تو رستے میں لوگوں نے اسے بتایا کہ جنگل میں چند دہشت گرد آئے ہوئے ہیں ۔ ان کے ہاتھ جو بھی بندہ لگتا ہے وہ اسے مار دیتے ہیں یا اغوا کر لیتے ہیں ۔ جامعہ مسجد تک جانے کے لیے جنگل میں تین رستے تھے باسط اللہ تعالٰی سے بہت محبت کرتا تھا اس لیے اس نے دل ہی دل سوچا کہ وہ جمعہ پڑھنے کے لیے ضرور جائےگا۔ بس اس نے فیصلہ کرنا تھا کہ جنگل پار کرنے کے لیے اسے کونسا راستہ اختیار کرنا چاہیئے۔
باسو کو میانہ روی کی اچانک حدیث پاک یاد آ گئی تو اس نے اپنے دل سے کہا کہ جنگل پار کرنے کے لیے وہ بھی درمیان والا راستہ اختیار کرے گا چناں چہ گاؤں کی جامعہ مسجد تک جانے کے لیے اس نے تین راستوں میں سے درمیان والا راستہ اختیار کیا۔ حالاں کہ یہ میانہ روی سے الگ بات تھی لیکن پھر بھی اللہ اور حضور پر اپنے یقین کی بدولت درمیان والا راستے پر چل کر مسجد میں بغیر کسی تکلیف کے پہنچ گیا اور نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد اسی راستے سے گھر واپس آ گیا یہ سب حضور صلى الله عليه واله وسلم کی بات پر یقین کرنے کی کرامت تھی کہ وہ دہشت گردوں سے بچ گیا
پیارے بچو!
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے اپنی امت کو جو باتیں بتائیں ان پر عمل کرنے سے ہر قسم کی تکلیف سے بچا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں آپﷺ کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے آپ کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین کرنے سے اللہ تعالٰی آسانیاں پیدا فرماتا ہے۔ اور زندگی کے ہر میدان میں کامیابی عطا کرتا ہے
Title Image by PixelArtisan1101 from Pixabay
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔