امن ہی اسلام ہے
کہانی کار: سید حبدار قائم
اٹک ضلع میں دو گاوں تھے جن کا نام غریبوال اور پڑی تھا دونوں کے درمیان ایک کرکٹ کا گراؤنڈ تھا یہی گراؤنڈ دونوں کے درمیان سرحد تھا گاوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے اور ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے رہتے تھے اسی طرح دن گزر رہے تھے لوگوں کا گھل مل کر رہنا سب کو اچھا لگ رہا تھا
انہی دونوں گاؤں کے دو بچے جن کی دوستی دور دور تک مشہور تھی جن میں سے ایک کا نام وسیم تھا جب کہ دوسرے کا نام نعیم تھا لوگ پیار سے وسیم کو سیمی اور نعیم کو نیمی کہہ کر بلاتے تھے یہ دونوں بچے پنڈیگھیب کے ہائی سکول میں پڑھتے تھے دونوں کی ایک ہی کلاس تھی دونوں ایک ہی گاڑی پر جاتے تھے جب سکول میں تفریح ہوتی تھی تو دونوں اپنے اپنے کھانے کے ٹفن باہر لے آتے اور مل کر کھاتے تھے
یوں ہی وقت تیزی سے گزر رہا تھا کہ غریبوال کے ایک جوان کی پڑی گاؤں کی ایک لڑکی سے شادی ہو گئی کچھ عرصہ کے بعد میاں بیوی میں جائیداد کے تنازع پر لڑائی ہو گئی اور دونوں میں طلاق تک نوبت جا پہنچی لڑکے والوں نے لڑکی والے خاندان کے ساتھ لڑائی شروع کر دی اور لڑکی والوں نے لڑکے کے خاندان سے لڑائی شروع کر دی تھی یہ لڑائی جنگ میں بدلنے والی تھی کہ نیمی اور سیمی کو پتہ چل گیا دونوں نے آپس میں طے کیا کہ وہ کسی قیمت پر قتل و غارت نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ بعض شر پسند اس معاملے کو بہت ہوا دے رہے تھے اور اس معاملے کو گاؤں کی عزت کا معاملہ قرار دے رہے تھے صلح کے لیے کوئی بھی راضی نہیں تھا سیمی اور نیمی بہت پریشان تھے کہ کسی طرح لڑائی ٹل جاۓ
دونوں گاوں کے لوگوں نے اتوار کے دن کرکٹ گراؤنڈ میں صبح دس بجے لڑائی کے لیے ایک دوسرے کو وقت دے دیا تا کہ فیصلہ بندوق کی نالی پر کیا جاۓ جو زندہ رہے وہ ہی حق پر ہو گا لیکن سیمی اور نیمی نے اس جہالت کا توڑ نکال لیا تھا دونوں نے اپنے گاوں کے سارے بچوں کو صبح نو بجے گراؤنڈ میں اکھٹا کر لیا اپنے اپنے گاؤں کے سامنے ان بچوں نے لمبی لمبی لائینیں بنا لی اور اپنی کتابیں لے کر کھڑے ہو گۓ انہوں نے طے کر لیا تھا کہ بڑوں کو ایک دوسرے تک نہیں پہنچنے دیں گے اور لڑائی کا وہ فیصلہ کریں گے کیوں کہ جب جہالت بڑھ جاۓ تو علم اور کتاب ہی فیصلہ کرتی ہے
سیمی اور نیمی نے بچوں کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اپنے بھائیوں اور بزرگوں کے سامنے کھڑے ہو جانا ہے اور انہیں اپنے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی یہ حدیث سنانی ہے کہ
”تمام مومن ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو جاۓ تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے“
جوں ہی صبح کے دس بجے تو غریبوال اور پڑی کے لوگ اپنے ہتھیار لے کر گراؤنڈ کی طرف چل پڑے لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گۓ کہ گاوں کے سارے بچے ان کے سامنے ایک لائن میں کھڑے ہیں اگر وہ فائر کریں گے تو اپنے بچوں کو گولی لگے گی
جب بچوں نے بڑوں کو دیکھا تو اونچی آواز میں کہا کہ آپ بزرگوں نے کیا یہ حدیث پاک سنی ہے تو بعض نے کہا کہ ہم نے سنی ہے اور بعض نے کہا کہ نہیں سنی ان کے جواب پر سیمی نے اپنے گاؤں اور نیمی نے اپنے گاؤں والوں سے کہا کہ آپ کیسے مسلمان ہیں جو کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن حضور صلى الله عليه واله وسلم کا حکم نہیں مانتے آپ لوگوں کو دوسروں کا درد کیوں محسوس نہیں ہوتا آپ بات کو بڑھا کر لڑائی پر اتر آۓ ہیں کیا ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نے یہی حکم دیا تھا؟
یہ سننا تھا ک لوگوں کے سر شرم سے جھک گۓ اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اتنے میں چند بزرگوں نے کہا کہ ہم لوگ غلط سوچ رہے تھے ہمیں ہمارے بچوں نے فساد سے بچا لیا ہے چلو اب مل کر صلح کر لیتے ہیں کیوں کہ یہی ہمارے اللہ پاک اور اس کے حبیب صلى الله عليه واله وسلم کو پسند ہے اس طرح دونوں گاؤں کے لوگوں نے ایک دوسرے سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور صلح کر لی لڑکی لڑکا جن کی طلاق ہونے والی تھی انہیں بھی ایکی دوسرے سے راضی کر لیا گیا
پیارے بچو !
سیمی اور نیمی کی وجہ سے دونوں گاؤں والوں نے آپس میں صلح کر لی اور دوبارہ شیر و شکر ہو گۓ
ہمیں بھی چاہیے کہ ہمیشہ مل جل کر رہیں اور اپنے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کا حکم مانیں
سچ ہے فتنہ ڈالنے والا شیطان کا دوست ہوتا ہے اور صلح جوئی کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے
سیمی اور نیمی نے اپنے علم سے دونوں گاؤں کی لڑائی روک دی اور محبت کا سبق دے کر امن قائم کیا کیوں کہ امن ہی اسلام ہے
Title Image by Mohamed Hassan from Pixabay
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔