قانون غیر یقینیت، سپر پوزیشن اور کوانٹم ٹنلنگ

قانون غیر یقینیت، سپر پوزیشن اور کوانٹم ٹنلنگ

Dubai Naama

سنہ 1927ء کے دوران جرمنی کے سائنس دان نوبل لوریٹیورنر ہائی سن برگ نے ایک اہم ترین قانون دریافت کیا جسے ہم غیر یقینیت کا قانون Law of Uncertainty کہتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق کوانٹم لیول پر موجود کوئی ذرہ یا الیکٹران کبھی بھی ایک خاص جگہ یا مقام پر نہیں رہ سکتا یے۔ اس لیئے ہم اس کی مکمل پوزیشن کی پیمائش نہیں کر سکتے یعنی ہم یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ ذرہ کچھ دیر پہلے کہاں تھا، اب کس سمت کو جا رہا ہے اور اس کی سمت کچھ دیر بعد کہاں ہو گی۔

دوسرے لفظوں میں ہم کسی الیکٹران وغیرہ کے بارے میں سو فیصد یقین اور درستگی کے ساتھ اس کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے مکمل یقین کے ساتھ کوئ پیش گوئ نہیں کر سکتے ہیں۔

اس بنیاد پر غیر یقینیت کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ایک وقت میں ہم کسی کوانٹم ذرے کی جگہ یا سمت تو بتا سکتے ہیں لیکن اسی لمحے ہم اس کی جگہ اور سمت دونوں ایک ساتھ نہیں بتا سکتے۔ یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب ہم کسی کوانٹم زرے کے مقام کی جتنا زیادہ درست پیمائش کرنے کی کوشش کریں گے اسی لحاظ سے اس ذرے کی رفتار کی درستگی میں کمی آتی جائے گی اور اگر ہم اس کی رفتار کو جتنا درست پیمائش کرنے کی کوشش کریں گے اسی لحاظ سے ہم اس کے مقام کی درست پیش گوئ کرنے میں ناکام رہیں گے۔

یہ نظریہ فزکس کا ایک اہم ترین ستون ہے جسے پرنسپل آف ان سرٹینٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس نظریئے سے آزادی اور فرار ہرگز ممکن نہیں یے۔ اگر ہمیں اس کائنات کو ٹھیک طریقے سے سمجھنا ہے تو ہمیں ہر حال میں اس کی سچائی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

یہ نظریہ کوانٹم فزکس میں ایک نئے خیال کو جنم دیتا ہے اور وہ خیال ہے امکان جسے فزکس کی زبان میں "پروبیبیلٹی” کہا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت کوانٹم چیز کا وجود کس جگہ پر ہے اور کون سی سمت میں ہے. ہم صرف امکان پر ہی بات کر سکتے ہیں مثال کے طور پر جب ہم کوئی الیکٹران کسی آلے کی مدد سے کسی ٹارگٹ پر فائر کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ الیکٹران اس آلے سے نکلنے کے بعد اپنے بتائے گئے ٹارگٹ پر جاتا ہے یا نہیں، چاہے ہمارا نشانہ کتنا ہی پرفیکٹ کیوں نہ ہو۔

کوانٹم مکینکس کی سائنس بھی کچھ انہی اصولوں کی پابندی کرتی ہے۔ سنہ 1920 میں ہائی سن برگ، پال ڈیراک اور شروڈنگر نے ایک اور نظریہ پیش کیا جسے ‘کوانٹم میکینکس’ کہا جاتا ہے۔ اس نظریئے کے مطابق کسی بھی ذرے کا الگ مقررہ کیا ہوا کوئی خاص مقام نہیں ہوتا اور نا ہی کسی خاص وقت میں ذرے کا مقام اور اس کی رفتار معلوم کی جا سکتی ہے۔ یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ ذرے کی حالت ہمیشہ ایک کوانٹم حالت ہے جو کہ مقام اور رفتار کا مجموعہ ہے۔ کیونکہ کوانٹم میکینکس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کائنات کوانٹم سطح پر صرف اور صرف چانس کی بنا پر ہی کام کر رہی ہے۔

محترم آئن سٹائن نے کبھی یہ قبول نہیں کیا تھا کہ کائنات بائی چانس یا اتفاقی طور پر کام کرتی ہے۔ لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ حقیقت میں یہ ایک شاندار نظریہ ہے اور موجودہ سائنس کا انحصار اسی نظریئے پر ہے اور اسی نظریئے کی بنا پر ہی انسان نے ٹی وی، موبائیل فون اور کمپیوٹرز وغیرہ بنائے ہیں اور کائنات کی چھوٹی دنیا اسی نظریے کی قید میں ہے۔ نیل بوہر یہ کہتا تھا کہ ایٹم کی دھندلی اور غیر واضع شکل اپنی اصلیت اس وقت دکھاتی ہے جب اس کا مشاہدہ کیا جائے۔ مشاہدے سے پہلے ایٹم ایک وہم اور گمان ہے جو کہ اس وقت اپنی شکل میں آتا ہے جب اس کو تلاش کیا جائے۔ سر آئن سٹائن اس نظریے کے بھی خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ "باہر کی دنیا اپنی اصلیت میں موجود ہے چاہے آپ اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں یا نہیں۔ ایٹم کی اصلیت کو ہمارا مشاہدہ ظاہر تو کر سکتا ہے لیکن اسے تخلیق ہرگز نہیں کر سکتا”۔

قانون غیر یقینیت، سپر پوزیشن اور کوانٹم ٹنلنگ

کیا ایٹم واقعی آزاد اور الگ حیثیت رکھتا ہے؟ اگر یہ بات درست ہے تو کم از کم اس کا مقام اور رفتار تو معلوم کی جا سکتی ہے۔ مگر کوانٹم نظریہ اس چیز کی نفی کرتا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونا لازمی ہوتی ہے۔ لیکن کوانٹم سطح پر ایسے واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں جن کا کوئی سبب ہی نہیں ہوتا جیسے کوئی فوٹان یا دوسرے ذرے بغیر کسی وجہ کے جمپ مار دیتے ہیں۔

تجربات سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ کوانٹم لیول پر غیر یقینیت فطری ہے اور تجربات اس چیز کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ واقعہ بغیر کسی سبب کے بھی پیش آ سکتا ہے۔

کوانٹم ٹنلنگ بھی کوانٹم فزکس کا ہی ایک مظہر ہے مگر اس کا کلاسیکل فزکس سے کوئی خاص لینا دینا نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہم اپنی گیند کسی دیوار پر پھینکتے ہیں تو وہ اس سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے۔ وہ گیند کبھی بھی دیوار کو پار نہیں کر سکتی۔ لیکن جب بنیادی ذروں مثلاً الیکٹرانز کو اس دیوار پر بار بار ٹکرایا جائے تو بعض اوقات الیکٹرانز اس رکاوٹ کو بغیر کوئ نقصان پہنچائے پار کر کے دوسری جانب بھی چلے جاتے ہیں۔ اس مظہر کو "کوانٹم ٹنلنگ” کہتے ہیں اور اس مظہر کی وضاحت الیکٹرانز کے ویوفنکشن کی مدد سے کی جاتی ہے۔

پہلے سنتے تھے کہ فلاں شخص بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں پر دیکھا گیا ہے۔ اب کوانٹم فزکس نے تجربات کے بعد حتمی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ کوانٹم زرات ایک ہی وقت میں دو یا دو سے زیادہ مختلف جگہوں پر خود کو قائم کر سکتے ہیں اور وہ اپنی شکلیں بھی بدل سکتے ہیں۔ قانون غیر یقینیت کے مطابق ایک الیکٹران کے بارے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اصل میں وہ الیکٹران کہاں موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹران محض ایک دیکھائ دینے والا ویو فنکشن ہے، یہ فینومینا ایک موج ہے، ایک ایسی موج ہے جو تب ظاہر ہوتی ہے جب اس کو دیکھنے اور اسکا مشاہدہ کرنے والا کوئ شاہد یا ناظر موجود ہوتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں ہمارے پاس کوئ پیمائیشی آلہ ہو اور اس کی طرف دھیان دیا جائے تو یہ موج فوری طور پر ہمارے لیئے ایک موج کی بجائے ایک ذرہ بن کر کسی خاص وقت اور کسی خاص مقام پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی اسے دیکھنے والا نہ دیکھے تو یہ موج ہر وقت، ہر جگہ اور ہر مقام پر ہمیشہ موجود رہتی ہے۔۔۔!!!

اس حیرت انگیز سائنسی حقیقت کو کوانٹم سائنس میں سپر پوزیشن Super Position کا نام دیا گیا ہے جس کا ایک دوسرا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے کوانٹم زرات کائنات میں بیک وقت مختلف خواص اور مختلف اشکال میں ہر جگہ اور ہر وقت خود کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ بس ایک ہم ہیں جو ابھی اس حیرت انگیز مظہر کو ننگی آنکھ سے دیکھنے کے قابل نہیں ہوئے ہیں: "تم سرسری جہاں سے گزرے،
ورنہ ہر جا، جہان دیگر تھا”۔

کوانٹم فزکس کی اس "سپر پوزیشن” کے مطابق اگر ہم بھی کلاسیکل اور بڑے جسم کی بجائے الیکٹران جیسا کوانٹم جسم رکھتے ہوں تو ہم بھی کائنات میں بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں پر اپنا ظہور کر سکتے ہیں۔

جڑواں کوانٹم زرات اینٹینگلڈ ہوں تو وہ کسی مخصوص حالت میں نہیں ہوتے۔ وہ آپس میں دوری کے باوجود ایک دوسرے میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں مگر انکی کوئ معلوم خصوصی سٹیٹ نہیں ہوتی جب تک وہ کسی چھوٹے ذرے یعنی کسی پروٹان یا الیکٹران وغیرہ سے تعامل نہیں کرتے۔

انٹینگلڈ پارٹیکلز پروٹان یا الیکٹران کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہ فوٹان ہیں جو ایک پروٹان یا الیکٹران وغیرہ کے ٹوٹنے سے ایک سے دو ہو جاتے ہیں۔ دوسری صورت میں دو کوانٹم ذرات کو قریب لا کر ان کے کوانٹم خواص Propertis کو ملا دیا جاتا ہے۔ اگر ان دو انٹینگلڈ پارٹیکلز میں کسی وجہ سے دوری پیدا ہو جائے یا کر دی جائے تو پھر بھی وہ اپنے مخصوص خواص پر قائم رہتے ہیں ان ذرات کی اسی جڑواں فطری صلاحیت کی وجہ سے انہیں انٹینگلڈ پارٹیکلز Entangled Particals کہا جاتا ہے۔

یہ دنیا اپنی دریافت میں نہ ختم ہونے والا دلچسپ عجوبہ جسے ہم جتنا دریافت ہم اتنی زیادہ ترقی کرتے ہیں مگر پاکستان سمیت مسلم دنیا نے عہد کیا ہے کہ کائنات کو دریافت نہ کر کے اس ثواب سے قاصر رہنا ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں