خلیل جبران
ایک لبنانی مصنفہ جمانہ حداد ایک جگہ لکھتی ہیں کہ، "میں یہ نہیں چاہتی کہ تم میرے جیسا سوچو، نہ یہ کہتی ہوں کہ تم میرے عقائد کو اپنے دل میں بسا لو، نہ یہ طلب کرتی ہوں کہ تم میرے فیصلوں کی تائید کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔ میری بس ایک درخواست ہے، ایک تمنا ہے کہ تم میرے وجود کا احترام کرو، میرے مختلف اندازِ فکر کا مان رکھو، یہ تسلیم کرو کہ میرے عقائد میرے ہیں، جو تمہارے عقائد سے الگ ہیں، میرے فیصلے میرے ہیں، جو تمہارے فیصلوں سے یکسر جدا ہیں۔ مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے عقائد اور فیصلوں کو اپنے اس لمحے میں جیوں، یہاں، اسی جگہ، اپنے پورے وجود کے ساتھ، بالکل اُسی طرح جیسے تم اپنے حق کے مطابق جیتے ہو۔”
لبنان کے مشہور ادیب اور شاعر خلیل جبران کا تعلق بھی لبنان سے تھا جنہوں نے "The Prophet” (پیامبر) جیسی خوبصورت ادبی کتاب لکھی تھی۔ یہ انمول کتاب سنہ 1988ء میں سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجن ڈویژن اسلام آباد کے میرے ایک سینئر افسر حنیف اورکزئی نے مجھے تحفتا دی تھی۔ میں نے یہ کتاب دو تین مرتبہ پڑھی مگر ہر بار اس کی ادبی تحریروں سے آزادی اور احساس کی ایک نئی خوشبو کو محسوس کیا جسے میں آج بھی اپنی روح میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک عورت ہی نہیں بلکہ تمام مرد و زن اپنی من مرضی کی ایک الگ تھلگ دنیا میں جینا چاہتے ہیں۔ سچ کہتے ہیں آزادی ایک نعمت ہے۔ یہ ایک ایسی آزاد اور منفرد دنیا یے کہ جس پر صرف انہی کی بادشاہت ہو۔
خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں 6 جنوری 1883ء کو پیدا ہوئے جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران اپنی کتاب "پیامبر” کی وجہ سے عالمی سطح پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں سنہ 1923ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب بہت مشہور ہوئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتابوں میں شمار ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ خلیل جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔
خلیل جبران آزادی کے بارے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ، "آزادی کے بغیر زندگی ایسی ہے جیسے روح کے بغیر جسم ہو۔” آج فلسطین اسرائیل کی جنگ کے باعث لبنان بھی آگ اور خون کے شعلوں سے گزر رہا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں کہتا ہوں کہ انسان جتنے بھی من پسند رشتوں میں گھرا رہتا ہو وہ اپنے اندر تشنہ تکمیلیت کا ایک مسلسل احساس محسوس کرتا ہے اور اسے تب تک اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا جب تک اسے سچی ذہنی اور جسمانی آزادی نہیں ملتی ہے جس کے لیئے آج فلسطینی اسرائیل کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں۔
خلیل جبران نے اپنی مشہور زمانہ کتاب پیامبر کے علاوہ ٹوٹے پر، اشک و تبسم، ارضی دیوتا، اپنا اپنا دیس، آنسو اور مسکراہٹ، آندھیاں اور پاگل آدمی وغیرہ بھی لکھیں۔ ان کی مشہور تحریروں کو خطوط خلیل جبران میں بھی مرتب کیا گیا ہے۔ ان تمام کتب کا اردو سمیت دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ان کی ہر کتاب ایک ادبی شاہکار ہے۔ لیکن جو لطف "پیامبر” کو پڑھ کر آتا ہے وہ ان کی کسی دوسری تصنیف میں شامل نہیں ہے۔ فلسفے کو ادب کی زبان میں پڑھنا ہو تو یہ کتاب ضرور پڑھنی چایئے۔
خلیل جبران کی کتب اور تحریروں کے مقام اور درجے کا اندازہ ان کے درج ذیل الفاظ سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ خلیل جبران لکھتے ہیں: پھر ایک عورت نے جس کی گود میں بچہ تھا کہا، ہمیں بچوں کے متعلق کچھ بتا۔ اس نے کہا: "تمھارے بچے تمھارے نہیں ہیں۔ وہ قوت حیات اور جذبہ آفرینش کی اولاد ہیں۔ وہ اس زندگی کی اولاد ہیں جس کی فطرت خود اپنی نمو کے لیئے بے قرار رہتی ہے۔ وہ تمھارے واسطے سے بھیجے جاتے ہیں، مگر وہ تمھاری ملکیت نہیں ہوتے۔ تم اپنی محبت ان کو دو جس قدر دے سکو، جس قدر دینا چاہو، مگر اپنا تخیل ان کے حوالے نہ کرو۔ اس لیئے کہ ان کو تمھارے تخیل کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنا تخیل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ تم ان کے جسموں کو اپنے گھروں میں آسائش پہنچاو لیکن ان کی روحوں کو آزاد چھوڑ دو۔ اس لیئے کہ ان کی روحیں اس گھر میں رہتی ہے جس کو "فردا” کہتے ہیں۔
خلیل جبران مزید لکھتے ہیں کہ وہ گھر اس "ماضی” اور "امروز” سے دور ہے جس میں تم سکونت رکھتے ہو۔ اس گھر میں تم نہیں جا سکتے، اس گھر کا تصور بھی تمھارے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ تم چاہو تو ان کے قدم بقدم چلنے کی کوشش کرو۔ مگر ان کو ہرگز اپنے قدم بقدم چلانے کی کوشش نہ کرو۔ اس لیئے کہ زندگی پسپا نہیں ہو سکتی، اس کا قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔