بچوں کی تربیت میں استاد اور والدین کا کردار
تحریر فیصل جنجوعہ
عام طورپر یہ سمجھاجاتا ہے کہ استاد کا کام صرف تعلیم دینا ہوتا ہے اور تربیت کرنا والدین کا فرض ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور تربیت دو مختلف چیزیں نہیں، جدید تعلیمی نفسیات نے دونوں کو کچھ اس طور پر یکجا کیا ہے کہ تعلیم بغیر تربیت کے اور تربیت بغیر تعلیم کے اپنا کوئی مقام نہیں رکھتی۔ اساتذہ اور والدین کا باہمی رابطہ اوران کی گاہےبہ گاہے ملاقاتیں دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ والدین کے لیے تو اس واسطے کہ وہ بچے کی سکول کی مصروفیات، اس کی تعلیمی ترقی ،کھیل کے میدان میں اس کی کار گزاریوں نیز ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ اس کے روابط سے واقف ہوسکیں اور اساتذہ کے واسطے اس لیے کہ وہ بچے کو مکمل طور پر سمجھ سکیں اور اس کی نجی زندگی کا کوئی رخ ان سے پوشیدہ نہ رہے۔
والدین استاد کو گھر میں بچے کے رویے ،اس کے مزاجی رجحانات ،اس کی عادات اور اس کی پسند و ناپسند کے بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔ گھر میں ہونے والے مختلف واقعات و حالات اور حادثات بچے کی جذباتی زندگی پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں،استاد کا ان سب سے باخبر رہنا نہایت ضروری ہے۔ اساتذہ اور والدین کا باہمی ربط اس لیے بھی بے حد ضروری ہے کہ والدین بچے کا بہت قریبی علم رکھتے ہیں اور اساتذہ بچوں کی نفسیات کے بارے میں ماہرانہ علم رکھتے ہیں لہٰذا دونوں فریقوں کے ملنے اور تبادلہ خیال کرنے سے ایسے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جو بچے کی زندگی پر خوشگوار اثر ڈالیں اور جن سے بچے کے لیے مفید رہنمائی حاصل ہوسکے۔استاد اور والدین دونوں کے پیش نظر ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے بچہ اور اس کی بہبود، پس جب دونوں ایک ہی مقصد کے لیے کام کرتے ہیں تو اگر ان میں اشتراک و تعاون ہو، وہ ایک دوسرے سے ملتے رہیں، ایک دوسرے کے نظریات اور ایک دوسرے کی مشکلات کا علم رکھیں تو یہ کام یقیناً زیادہ احسن طریق پر انجام پاسکتا ہے۔
استاد کا سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے کڑے امتحان کے لیے تیار کرے۔ اس کےلیے نہایت ضروری ہے کہ بچے کی علمی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی عملی زندگی پر بھی نظر رکھی جاے جس کے لیے اساتذہ کو والدین کی مدد اور ان کے اشتراک و تعاون اور ان کے ساتھ رابطہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکول میں اساتذہ بہت تھوڑے وقت کے لیے بچوں سے ملتے ہیں جس کےباعث بچے استاد سے مکمل طور پر بے تکلف نہیں ہو پاتے لہذا ان کی پوری زندگی استاد کے سامنے بے نقاب نہیں ہوسکتی۔ اس کے مقابلے میں بچہ گھر میں پورے طور پر آزاد ہوتا ہے اور والدین کے سامنے اُس کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔
سکول میں جب بچے کو بہت سے ہم جولی اور ہم عصر کھیلنے کے لیے ملتے ہیں تو استاد کو بچوں کی بھاری تعداد کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے. استاد کو اس موقع پر بچوں کی گروہی جبلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ بچے بہت کچھ آپس میں بھی ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں، مل بانٹ کر کھانا ،کسی کا حق نہ مارنا،خراب حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا، گروپ سپرٹ اور اپنی پارٹی کے لیے کام کرنا یہ سب وہ باتیں ہیں جو بچے کی گروہی جبلت کی تربیت میں آجاتی ہیں۔ بچے جو کھیل کھیلتے ہیں ان میں اپنی اسی جبلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
انسان ایک سماجی حیوان ہے مل جل کر رہنا اس کی فطرت میں ہے۔ انسان کی معاشرتی زندگی بہت پہلے شروع ہوئی اور اس کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب انسان نے آنکھ کھول کر یہ دیکھا تھا کہ وہ انفرادی طور پرآفات ارضی و سماہی سے نپٹنے کے قابل نہیں ہے۔انسان کی گروہی جبلت نے اسے سمجھایا کہ تنہا رہنے میں نقصان اور مل جل کر رہنے میں فائدہ ہے اور یوں معاشروں کی تشکیل ہوئی۔انسان جس معاشرے کا بھی فرد ہوتا ہے اس پر معاشرے کی جانب سے کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں ،اسی طرح معاشرے پر انسان کے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔انسان اگر ایک اچھا شہری ہے تووہ ان حقوق و فرائض کو بخوبی سمجھتا اور ان کو پورا کرتا ہے، اگر نہیں تو وہ معاشرتی زندگی میں درست طرز عمل اور چلن کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ والدین اوراساتذہ کے مقدس فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کو معاشرتی زندگی کا درست تصور دیں اور انہیں معاشرے کا احترام کرنا سکھائیں۔ ہمارے کچھ افعال تو محض انفرادی ہوتے ہیں لیکن کچھ کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں پر پڑتا ہے، یعنی ہمارے بعض افعال اجتماعی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سماجی نفسیات اس چیز کی متقاضی ہے کہ بچے کی گروہی جبلت کی درست تربیت کی جائے تاکہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کے ساتھ صحیح طریقے پر ہم آہنگ ہوسکے اور بڑا ہوکر ایک کامیاب شہری بن سکے۔
کالم نگار، ایجوکیشنٹ، شعبہ تعلیم تربیت، پرنسپل الائیڈ سکولز پنجاب گروپ آف کالجز راولپنڈی
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔