الحاد کے خلاف دینی علوم کا سائنسی ابلاغ

الحاد کے خلاف دینی علوم کا سائنسی ابلاغ

Dubai Naama

ایک ایسا شخص جو نہ تو خدا کا قائل ہو اور نہ ہی اس کی صفات کو مانتا ہو ملحد یا دہریہ کہلاتا ہے۔ اس نظریہ حیات کو ماننے والے لوگ عموماً مادے کو غیر فانی اور متشکل تسلیم کرتے ہیں۔ اس کو سائنسی "قانون بقائے مادہ” نے بھی فروغ دیا جس کو 1789ء میں انتھونی لیووزئیر نے پیش کیا تھا، جس کے مطابق ایک کیمیائی عمل میں مادے یا حرارت کو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر فنا کیا جا سکتا یے مگر انہیں مختلف شکلوں میں تبدیل ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اس سائنسی قانون کی روشنی میں زمانہ ازلی اور ابدی ہے اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہو گی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس فلسفہ زندگی کو ماننے والے لوگ آخرت کے تصور یا حیات بعد از موت کو ماننے سے انکاری ہیں۔

دراصل دہریت یا الحاد ایک مضبوط ترین سائنسی نظریہ حیات ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ افسوس ہے کہ اسلامسٹ جو معقولات کو محسوسات پر ترجیح دیتے ہیں وہ خود بھی دہریت اور الحاد کے پھیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔ جدید سائنسی علوم سریعا کائنات اور زندگی کو تجربے اور قوانین کی بنیاد پر پرکھنے کے حاضرہ علوم ہیں۔ ممکن ہے کل کلاں سائنس سے کچھ بڑے علوم ایجاد ہو جائیں تو کائنات اور زندگی کی ساری تشریحات کو ازسر نو مرتب کرنا پڑے، مگر سردست سائنسی علوم ہی زندگی اور مابعد زندگی کو سمجھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔

اسلام ایک عالمگیر نظریہ حیات یے جو انسان کی تقدیر عمل صالح کی صورت میں انسان ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے۔ دہریت اور الحاد کو اسلام کے مدمقابل نظام کے طور پر متعارف کروانا انتہائی خطرناک مسئلہ ہے جو کہ خدا کی ذات والا کے بارے ہے کہ کائنات کا خالق اور اسے چلانے والا خدا موجود بھی یے یا نہیں ہے۔ کاش ہمیں احساس ہو جائے کہ ہماری اگلی نسلوں کے لئے دہریت سے بڑا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔

یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خلاف قرآن و سنت روایات دہریت کا ہمارے بچوں کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ اگر ہم نے قرآن اور اسلام کو جدید علوم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہ کی تو سائنسی ترقی اور نئے نظام تعلیم نے "دہریت” و "الحاد” میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مسلم تہذیب ہی کو ہڑپ کر رہے ہیں۔

ہمارے عہد کے مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان سائنسی علوم کی روشنی میں قرآن اور اسلام کے نظریہ حیات کو سمجھنے کی بجائے سرے سے اسلام اور سائنس ہی کو ایک دوسرے کے مخالف یا متضاد علوم سمجھتے ہیں جس کا فائدہ الحاد اور دہریت پر یقین رکھنے والوں کو ہو رہا ہے کہ جوں جوں سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے دنیا میں ملحدین اور دہریوں کی نہ صرف تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ جدید سائنسی علوم پر دسترس رکھنے کی وجہ سے وہ دن بدن مزید طاقتور بھی ہو رہے ہیں۔

الحاد کے خلاف دینی علوم کا سائنسی ابلاغ

اس بنیادی مسئلے کو سمجھنے کے لیئے یہ جاننا ضروری ہے کہ الحاد یا دہریت کے ماننے والے خدا یا خالق کائنات کے وجود کا انکار کر کے زندگی کے تمام تقاضوں اور مسائل کو حل کرنے کے لیئے انسان کی حاصلہ طاقت پر یقین رکھتے ہیں جبکہ مسلمان اور کچھ دیگر پسماندہ اہل مذاہب اسے تقدیر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک غیر منطقی سوچ ہے کیونکہ "خدا” اور "تقدیر” پر ایمان رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کائنات میں انسانی عظمت کی برتری کو قائم کرنے کے لیئے انسان کے اختیار اور ارادے کو سرے ہی سے نظر انداز کر دیا جائے۔

اس لحاظ سے دہریت اور الحاد ایک قسم کا زہر ہے جو مسلم طلباء کے اذہان میں سائنسی علوم میں کم یا عدم دلچسپی کی وجہ سے داخل ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے ایک تو دنیا بھر کے مسلمان سائنس اور جدید علوم کے حصول میں پیچھے رہ گئے ہیں دوسرا وہ اس دہرے اور تذبذب پر مبنی "مائنڈ سیٹ” کی وجہ سے اسلام پر مکمل عمل کر کے ایک احسن انسانی معاشرہ بھی قائم نہیں کر سکے ہیں کہ دنیا مسلمانوں کی "شدت پسندی” کو نظر انداز کر کے ان کی طرف متوجہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خود مسلمان ممالک الحاد اور دہریت کے حامل اہل مغرب کے معاشروں میں ضم ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں اہل ثروت مسلمان مغربی ممالک کو ہجرت کرتے ہیں یا خود اپنے مشرقی معاشروں میں مغربی تہذیب کے پھیلنے کا رستہ ہموار کر رہے ہیں۔

قرآن و سنت کی روشنی میں دہرہت و الحاد کا مقابلہ فقط جدید علوم کے حصول میں پوشیدہ ہے کیونکہ ایمان بالغیب کو عقل، فلسفہ اور منطق کی رو سے تلاش کرنے کا واحد حل قرآن کو جدید علوم کی روشنی میں سمجھنے سے وابستہ ہے ورنہ ایمان بھی ایمان نہیں رہتا کیونکہ ایمان بالغیب ایک فضیلت ہے جس کو حاصل ہے وہ خوش نصیب ہے اور جو محروم ہے اسے جدید سائنسی علوم کو حاصل کیئے بغیر ہم گھول کر پلا نہیں سکتے کیونکہ دین کا فقط ان علوم کی روشنی میں ابلاغ ہی کیا جا سکتا ہے۔

"الحاد” کا لفظ عربی زبان کے لفظ "لحد” سے اِسمِ صفت کے طور پر نکلا ہے جس کے لغوی معنی "ایک طرف ہو جانے” یا "چھوڑ دینے” کے ہیں۔ انگریزی زبان میں اسے Unorthodoxy سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یعنی اس کے معنی قدامت پرستی کو ترک کر دینے کے ہیں۔ جبکہ اسلامی اصطلاح میں "اِلحاد” کسی شخص یا گروہ کے معروف اور مروّج مذہبی روش سے کنارہ کر لینے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ معروف اور مروّج مذہبی روش سے مراد وہ مسالکِ اسلامیہ ہیں جو عام مسلّمات کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں جیسا کہ اہلِ سنت، اثنا عشریہ، خارجیت، سلفیت اور ظاہریت وغیرہ ہیں۔

اِلحاد کو لغوی یا اصطلاحی اعتبار سے انگریزی زبان کی اصطلاح Atheism سے نہیں جوڑا جا سکتا چنانچہ اِس کے لیے ایک الگ سے اسلامی اصطلاح "دہریت” موجود ہے۔ یہ اِلحاد اور دہریت میں جوہری فرق ہے جسے سائنسی علوم کو حاصل کیئے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں