کہانی کار: سید حبدار قائم
ایک جنگل میں سنہرا ہرن رہتا تھا جس کی خوبصورتی کے دور دور تک چرچے تھے جنگل کے سارے جانور نہ صرف اسے دیکھنا چاہتے بل کہ اس سے دوستی کرنا چاہتے تھے اس کے حسن کی وجہ سے جنگل کے جانوروں نے مل کر اسے جنگل کا بادشاہ بنا دیا تھا وہ بھی جنگل کے سارے جانوروں سے محبت کرتا تھا
ایک دن سنہرا ہرن جنگل میں سیر کے لیے نکلا گھنی جھاڑیوں میں چلتے چلتے اس کی ٹانگ ایک درخت کے دو شاخے میں پھنس گئی اس نے بہت کوشش کی لیکن اس سے نکل نہ سکا اسی طرح کوشش کرتے کرتے وہ بے ہوش ہو گیا
کہتے ہیں کہ ایک لکڑہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لیے آتا تھا اس دن بھی اتفاقاً وہ اسی جگہ آ نکلا جب اس نے سنہرے ہرن کو پھنسا ہوا دیکھا تو اس نے آری سے دونوں شاخوں کو کاٹا اور ہرن کو آزاد کر کے اس کے منہ میں پانی ڈالا تو ہرن کو فوری طور پر ہوش آ گیا جب ہرن نے دیکھا کہ اس کی ٹانگیں آزاد ہو چکی ہیں اور اس کی زندگی بچ گئی ہے تو وہ بہت خوش ہوا
سنہرے ہرن نے لکڑ ہاڑے کا شکریہ ادا کیا اور اپنے متعلق بتایا کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے لکڑ ہاڑے نے سنہرے ہرن کی بات سنی تو بہت خوش ہوا سنہرے ہرن نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو لکڑ ہارے نے اس سے کہا کہ میں اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو اس کے گھر آوں گا یہ وعدہ کر کے لکڑ ہارا لکڑیاں کاٹ کر گاوں کی طرف چلا گیا
وقت بہت ہی تیزی سے گزر رہا تھا پہلی تاریخ بہت قریب تھی لکڑ ہارا وعدہ نبھانا جانتا تھا اسے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کا حکم یاد تھا جو کہ قرآن کی آیت بھی تھی کہ
”تم وعدے کو پورا کرو اس کے متعلق قیامت کے روز پوچھا جاۓ گا“
چناں چہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے پہلی تاریخ کو لکڑ ہارا جنگل کی طرف چل پڑا اچانک اس کی نظر چند شیروں پر پڑی جو دوسرے علاقے سے اس جنگل میں آۓ ہوۓ تھے لکڑ ہارے نے اپنی جان بچانے کے لیے ایک گھنا درخت دیکھا اور فوراً اس پر چڑھ گیا شیروں نے اس کی طرف بالکل نہ دیکھا وہ بہت تھکے ہوۓ تھے لکڑ ہارے نے اپنا وعدہ نبھانا تھا اس نے سنہرے ہرن کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کرنا تھا چناں چہ وہ ایک درخت سے دوسرے پر اور دوسرے سے تیسرے پر شاخیں پکڑتے پکڑتے سنہرے ہرن کے گھر تک نکل گیا سنہرا ہرن اور دوسرے جانور بھی شیروں سے جان بچانے کے لیے چھپے ہوۓ تھے انہیں بھی شیروں کی آمد کا پتہ چل چکا تھا آخر کار لکڑہارا سنہرے ہرن سے مل گیا تمام جانور ہرن کے اردگرد بیٹھے ہوۓ تھے جب سنہرے ہرن نے لکڑہارے کو دیکھا تو حیران رہ گیا کہ کس طرح اتنے خطرے کے باوجود لکڑہارے نے وعدہ پورا کر دکھایا
سنہرے ہرن نے جنگل کے سارے جانوروں کے ساتھ مل کر لکڑہارے کو خوش آمدید کہا اور جنگل کے پھل کھانے کو دیے سنہرے ہرن نے لکڑہارے سے پوچھا کہ آپ کی جان کو خطرہ تھا لیکن آپ نے پھر بھی مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کے جواب میں لکڑہارے نے کہا کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم وعدہ پورا کرتے تھے اور مسلمانوں کو وعدہ پورا کرنے کا حکم دیتے تھے اس لیے میں نے وعدہ پورا کر کے اپنے آقا کا حکم مانا ہے
اس بات کا سننا تھا کہ سنہرے ہرن نے جنگل کے جانوروں کو مخاطب کر کے کہا
اے میرے پیارے دوستو! میں چند دن پہلے درخت کے دو شاخے میں پھنس گیا تھا اور بری طرح بےہوش ہو گیا تھا مجھے یہ لکڑہارا پکڑ کر گھر لے جاسکتا تھا اور مجھے ذبح کر کے میرا گوشت اپنے بچوں کو کھلا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا اور مجھے دو شاخے سے نکال کر پانی پلایا اور صلہ رحمی کی آج اگر میں زندہ ہوں تو لکڑ ہارے کی وجہ سے ہوں اور آپ سب جانوروں پر بادشاہت کر رہا ہوں اور میں نے ایک فیصلہ اُسی دن کر لیا تھا جب میری جان لکڑہارے نے بچائی تھی کہ اس جنگل کا بادشاہ اب مجھے نہیں اس لکڑہارے کو ہونا چاہیے اور میں آج اس کا نام لکڑہارا ختم کر کے ٹارزن رکھ رہا ہوں آج کے بعد یہ ہماری جان و مال کی حفاظت کرے گا کیوں کہ یہ خطروں سے کھیلنے والا بہادر انسان ہے اور جو شخص اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ اپنے آقا حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی بات مانتا ہے اور وعدہ پورا کرتا ہے اسے بادشاہ مان لینا ہی مناسب ہے اگر یہ وعدے کی پابندی نہ کرتا تو میں آج جنگل کا بادشاہ کسی اور جانور کو بنا دیتا
سنہرے ہرن کی بات سن کر سب جانوروں نے لکڑہارے کو اپنا بادشاہ مان لیا اور اسے مبارک باد پیش کی اس کے بعد ٹارزن جب بھی ایک آواز لگاتا سارے جانور اس کے پاس آ جاتے اور اُس کا حکم مانتے
پیارے بچو! جو بندے اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی بات مانتے ہیں انہیں اللہ پاک مزید عزت سے نواز دیتا ہے۔ لکڑہارے نے جیسے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور وعدہ پورا کیا تو اللہ نے اسے جنگل کا بادشاہ بنا دیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اللہ کا حکم مانیں اور وعدہ خلافی نہ کریں تاکہ اللہ ہماری عزت میں بھی اضافہ فرماۓ۔
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔