سبھی عنوان میرے
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قائم
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانِ ذیشان ہے کہ
لکھ تا کہ تو پہچانا جائے
شجاع اختر اعوان نے جب کائنات کی وسعتوں کو دیکھا تو ہر طرف رنگ و نور پھیلا ہوا پایا اور اس کے ساتھ وطن عزیز کے چار خوبصورت موسم پاۓ پھولوں پر تتلیوں کے خوبصورت رنگ دیکھے پرندوں کی چہچہاہٹ سنی پھر انسانوں کے حسن و جمال سے لے کر ان کے مثبت اور منفی رویے دیکھے تو کہہ اٹھے ”سبھی عنوان میرے“
پھر جب قلم اٹھایا تو سبھی عنوان میرے سمجھ کر لکھتے گۓ اور اخبارات کی زینت بناتے گۓ مسلسل لکھنے کی وجہ سے اب تک تین کتابوں کے مصنف بن چکے ہیں قلم کی روانی نے انہیں اٹک کے اچھے قلم کاروں میں لا کھڑا کیا ہے اٹک کی تاریخ ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کے بغیر ادھوری ہے آگے بڑھنے کا جذبہ ہر فرد میں موجود ہوتا ہے جو کہ ڈاکٹر صاحب میں بدرجہ ء اتم موجود ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کوالٹی کے بھی قائل ہیں جس کی وجہ سے دوسرے صحافیوں اور کالم نگاروں میں ممتاز نظر آتے ہیں
سخن کے دریچوں سے جب کوئی ہوا کا جھونکا آئے تو وہ گلاب چنبیلی موتیا رات کی رانی یا دن کے راجہ کی خوشبو ضرور لاتا ہے اس بار جو مہک افروز جھونکا ہماری سانسوں کو مہکا گیا وہ شجاع اختر اعوان کی نئی کتاب سبھی عنوان میرے ہے
اس میں سارے پھولوں کی خوشبو ہے شجاع اختر اعوان باریک بین قلمکار ہیں معاشرے کی دکھتی ہوئی رگوں کو جانتے ہیں ان کا علاج کیا ہے اس پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں
شجاع اختر اعوان سے میری ملاقات ہوئی تو ایک عجیب سی کشش ان کے مقناطیسی کردار میں پائی زبان کی مٹھاس اتنی کہ مصری مزاج انہیں کہنا غلط نہیں ہے وعدے کے پکے دیانتدار اور مخلص دوست ہیں جب کبھی کوئی مشکل پیش آئی تو شجاع صاحب سے رابطہ کیا جس کا فوری حل نکالتے ہیں اگرچہ ان سے میری ملاقاتیں بہت کم ہوئی ہیں لیکن جتنی ملاقاتیں ہوئیں میں نے انہیں مخلص پایا
اپنی کتاب کے پہلے کالم بھیڑیوں کے جسموں پر ہرنیوں کی کھالیں میں وطن میں موجود معدنیات موسم دریا سمندر تیل گیس کے ذخائر بیان کر کے حکام پر کڑی تنقید کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے وطن سے مال بنا کر دوسرے ملکوں میں بھیج دیا ہے اور وطن کو مقروض کر دیا ہے پاکستان کا یہ درد لکھ کر عوام کی بہترین ترجمانی کی ہے جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا
اپنے دوسرے کالم اخلاقی اقدار اور وقت کا تقاضا میں سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا کردار بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سیاست دانوں کی سوشل میڈیا ٹیموں نے بکواس بازی اور جھوٹ کو فروغ دے کر فوج اور عدلیہ کو بدنام کیا ہوا ہے سوشل میڈیا ٹیمیں مخالف سیاست دانوں کی تصویریں بگاڑ کر کبھی کتا بناتی ہیں کبھی سور۔ یہ کہاں کا دین ہے ہمارے آقا پاک نے تو احسن گفتگو کرنے کا حکم دیا ہے شجاع اختر اعوان نے معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر موجودہ نظام کو جگانے کی کوشش کی ہے
ان کے سارے کالمز میں کوئی نہ کوئی پیغام ہے جس سے معاشرے کا سدھار کیا جاسکتا ہے شجاع اختر بات کو اتنی آسانی سے کہہ جاتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا۔
سبھی عنوان میرے میں وطن اور اس کے مکینوں کے مثبت پہلو بھی دکھاۓ گۓ ہیں جن کو پڑھ کر دل خوش ہو جاتا ہے اس کتاب پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مختلف لوگوں نے شجاع اختر اعوان کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شجاع اختر اعوان کا قلم الفاظ کی صورت میں کیسے گل فشانی کرتا ہے گفتگو سادہ لیکن دل کش ہے کتاب میں سارے کالم اور مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں جن کو اکھٹا کر کے کتابی صورت دی گئ ہے شجاع صاحب بہت متحرک انسان ہیں ان کی یہ تیسری کتاب ہے ادبی دنیا میں بھی شجاع صاحب اپنی پہچان رکھتے ہیں ادبی مجلے جمالیات کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں لکھنا پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے جس نے انہیں صحافی کے ساتھ ادیب و مصنف بنا دیا ہے گھر میں ایک لائبریری بھی رکھتے ہیں جس میں بہت اہم کتابیں رکھی ہوئ ہیں
سبھی عنوان میرے بہت ہی خوب صورت ٹائیٹل کے ساتھ جمالیات پبلشرز نے شائع کی ہے
اگر اس کتاب کے سارے کالمز اور مضامین پر لکھا جائے تو بات بہت آگے چلی جائے گی اور ایک نئی کتاب بن جائے گی ہمیں اختصار درکار ہے اس لیے یہاں اس دعا پر بات ختم کرتے ہیں کہ اللہ پاک ڈاکٹر شجاع اختر اعوان کو لمبی زندگی عطا فرمائے اور ان کے قلم کو رواں دواں رکھے۔ آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔