ایک SHO کی طاقت
تحریر توصیف نقوی
چند سال پہلے ایک صحافی جاوید چوہدری کا ایک کالم پڑھا تھا جس میں موصوف نے ایک پیسے کے لین دین کے معاملے پہ قصہ لکھا تھا۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ رحیم یار خان کی ایک کاروباری شخصیت اور لاہور کی ایک کاروباری شخصیت کا آپس میں کروڑوں روپے کے لین دین کا تنازعہ تھا چونکہ لاہور والا بزنس مین کچھ زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا تو اس نے رحیم یار خان کے بزنس مین کے پیسوں کی واپسی کو کبھی سیریس نہ لیا اور ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
بات جب حد سے بڑھی تو رحیم یار خان کا بزنس مین(جس کہ ملتان کے گیلانی خاندان سے قریبی مراسم تھے) اپنا قصہ لیکر سابق وزیراعظم گیلانی صاحب کے پاس چلا گیا۔ گیلانی صاحب نے لاہور کے پولیس آفیسرز کو کال کی مگر لاہوری بزنس مین کے اثر و رسوخ کے متعلقہ آفیسر کی جانب سے ڈھکے چھپے الفاظ میں اظہار کیا گیا اور معاملہ بغیر قانونی کار روائی کے حل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
اب چونکہ اس معاملے میں سابق وزیر اعظم پڑ گئے تو بات سیریس ہوگئی اور رحیم یار خان پولیس کو باقاعدہ کار روائی کا حکم سنایا گیا مگر پولیس افسران کی جانب سے معاملہ کھسکتے کھسکاتے متعلقہ تھانے کے سٹیشن ہیڈ آفیسر کے کندھوں پہ ڈال دیا گیا۔
ایس ایچ او کو ایف آئی آر کے بعد قانونی کار روائی کا کہا گیا مگر ایس ایچ او شاید زیادہ سیدھا تھا جس نے سیدھا جواب دے دیا کہ صاحب جہاں بڑے افسران کھسک رہے ہیں وہاں میں کیا کر سکتا ہوں۔ ایس ایچ او کی بات سابق وزیراعظم سمجھ گئے اور یقین دلایا گیا کہ تم ثبوتوں کے مطابق قانونی کار روائی کرو تمہارے اوپر کوئی پریشر نہیں آئے گا۔
ایس ایچ او نے اوپری سپورٹ کے بعد لاہور کے بزنس مین کو جو بھی قانونی طریقہ کار تھا اس کے تحت بلایا پیغام بھجوایا مگر جو بڑے افسران کو سیریس نہیں لیتا تھا وہ ایک معمولی ایس ایچ او کو کدھر منہ لگاتا۔ ایس ایچ او نے روایتی پولیس کے ڈالے پہ لاہور کا سفر شروع کر دیا اور لاہوری بزنس مین کو گلبرگ کے پوش تجارتی مرکزی ایریے سے ریکی کے بعد گرفتار کر کے پولیس کے ڈالے پہ بٹھا کے لاہور سے سیدھا رحیم یار خان لے آیا اور لاک اپ میں بند کر دیا۔
لاہور کے پوش ایریا کا بزنس مین جب پولیس کے ڈالے پہ سفر کر کے پسینے میں شرابور رحیم یار کے تھانے کے بغیر اے سی اور ایر کولر کے لاک اپ میں ڈالا گیا تو دو گھنٹے بعد ہی لین دین کے تمام الزامات مان گیا اور پیسوں کی واپسی پہ رضا مند ہوگیا۔
حاصلِ کلام!
چند دن پہلے ہماری ریاست کے وزیرِ داخلہ صاحب نے فرمایا کہ بلوچستان کے دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں جس پر کافی ٹرولنگ کی گئی مگر میرا خیال ہے کہ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ دہشت گرد/ڈاکو چاہے بلوچستان کے ہوں یا سندھ کے، پنجاب کے ہوں یا کے پی کے، "کچے کے ہوں یا پکے کے”۔ یہ سب ایک ایس ایچ او کی مار ہیں اگر اسی ایس ایچ او کو یا کسی بھی سرکاری ذمہ دار آفیسر کو یہ ڈر نہ ہو کہ وہ ایسے لوگوں پہ ہاتھ ڈالے گا تو اس بچوں کا کیا بنے گا اسکی ٹرانسفر تو نہیں ہوجاے گی یا کسٹم آفیسرز کی طرح اس کا قتل تو نہیں ہوجاے گا۔
کراچی کے ایک بگڑے نواب زادے جتوئی کا سر عام ایک پولیس آفیسر کے بیٹے کو قتل کر دینا اور بعد میں اسی مقتول لڑکے کی ماں کا روتی آنکھوں سے قاتل کو معاف کر دینا کہ اس کی جوان بیٹیاں ہیں(یہ قصہ زیادہ پرانا نہیں سب کو یاد ہوگا)۔
ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی، ڈاکہ زنی، بیچ سڑک پہ عام عوام کو کچل دیے جانے کے پیچھے کچھ ایسی ہی کہانیاں ملیں گی جہاں طاقتور کے لیے الگ قانون اور کمزور کے لیے الگ قانون لاگو کیا جاتا ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔