شہری صحافت(Citizen Journalism)

شہری صحافت(Citizen Journalism)


تحریر و ترتیب! توصیف نقوی

شہری صحافت کی تاریخ کا آغاز اس تصور سے جڑا ہے کہ عام شہری بھی خبروں اور معلومات کو جمع کرنے، رپورٹ کرنے اور پھیلانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ روایتی میڈیا اداروں کا حصہ ہوں۔ سٹیزن جرنلزم کی تاریخ کو تین اہم مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے کہ!

ابتدائی مراحل۔
روایتی میڈیا کے دور میں بھی بعض اوقات عام شہری خبریں فراہم کرتے تھے، لیکن ان کی رپورٹنگ کو وہ پذیرائی نہیں ملتی تھی جو پیشہ ور صحافیوں کو ملتی تھی۔ مثال کے طور پر 1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل کے دوران ایک شہری آبراہم زپرودر (Abraham Zapruder) کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو نے دنیا بھر میں خبر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم یہ مثالیں محدود تھیں کیونکہ عام شہریوں کے پاس وسائل اور پلیٹ فارمز کی کمی تھی۔

انٹرنیٹ اور بلاگنگ کا آغاز۔
1990 کی دہائی میں انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ سٹیزن جرنلزم نے ایک نیا موڑ لیا۔ انٹرنیٹ نے ہر شخص کو ایک عالمی پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں وہ بلاگس، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبریں اور مواد شیئر کرسکتا تھا۔ بلاگنگ کی ابتدا سٹیزن جرنلزم کی ایک اہم شکل کے طور پر ہوئی، جہاں عام لوگ اپنی تحریروں، تصاویر، اور ویڈیوز کے ذریعے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے لگے۔

سوشل میڈیا اور موبائل جرنلزم۔
2000 کی دہائی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹویٹر، اور یوٹیوب نے سٹیزن جرنلزم کو ایک نئی راہ دکھا دی۔ اب ہر فرد نہ صرف خبروں کی تخلیق بلکہ اس کی تیز تر ترسیل میں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔ موبائل فونز، خاص طور پر اسمارٹ فونز، کی موجودگی نے عام شہریوں کے لیے یہ ممکن بنایا کہ وہ کسی بھی واقعے کو رئیل ٹائم میں ریکارڈ کرکے فوراً سوشل میڈیا پر شیئر کرسکیں۔

شہری صحافت(Citizen Journalism)

عالمی واقعات اور سٹیزن جرنلزم کی بڑھتی ہوئی اہمیت-
سٹیزن جرنلزم نے کئی عالمی واقعات میں اہم کردار ادا کیا، جیسے کہ 2004 کا سونامی، 2009 میں ایران کے انتخابات کے دوران احتجاج، عرب بہار، جمال خاشوگی قتل کیس، 2020 میں جارج فلوئڈ کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاجات اور فل__سطین میں ظلم و بربریت پہ سوشل میڈیا کے ذریعے رپورٹ ہونے واقعات کہ جن کی بنا پر یورپ و افریقہ جیسے غیر مسلم ممالک کی عوام نے بھی احتجاج کیا۔ ان واقعات میں شہریوں کی طرف سے شیئر کی گئی ویڈیوز اور خبریں روایتی میڈیا کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔ سٹیزن جرنلزم آج کی دنیا میں ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جہاں عام شہری غیر جانبدار خبریں فراہم کرنے میں پیشہ ور صحافیوں کے ساتھ شریک ہیں۔

پاکستانی معاشرے پر سٹیزن جرنلزم کا بہت گہرا اثر پڑ رہا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو روایتی میڈیا کے متبادل کے طور پر براہ راست خبروں اور معلومات تک رسائی اور اسے پھیلانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سوشل میڈیا، بلاگنگ، اور موبائل فونز کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے پاکستان میں سٹیزن جرنلزم کی طاقت اور اثرات کو زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہاں چند اہم پہلوؤں کا ذکر کرنا چاہوں گا!

.روایتی میڈیا کے کنٹرول سے آزادانہ خبریں۔
پاکستان میں روایتی میڈیا بعض اوقات حکومتی اور سیاسی دباؤ یا مفادات کے زیر اثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کچھ خبریں یا واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے یا محدود انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ سٹیزن جرنلزم نے عوام کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ براہ راست اپنی کمیونٹی اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرسکیں۔ یہ خبریں اکثر روایتی میڈیا کے زیرِ اثر نہیں ہوتیں اور حقیقی طور پر عوام کی آواز ہوتی ہیں۔

بے آواز افراد کی آواز۔
سٹیزن جرنلزم نے پاکستانی معاشرے کے کمزور طبقوں، جیسے کہ خواتین، اقلیتوں، اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔ یہ لوگ عام طور پر روایتی میڈیا میں نظرانداز کیے جاتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا اور سٹیزن جرنلزم کے ذریعے وہ اپنے مسائل کو عوامی سطح پر لا سکتے ہیں۔

احتساب اور شفافیت۔
سٹیزن جرنلزم نے پاکستان میں حکومتی اور انتظامی اداروں کے لیے ایک نیا چیلنج پیدا کیا ہے۔ عام لوگ اب حکومتی بدعنوانی، ناانصافی، اور غلطیوں کو فوراً سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس سے حکومتی اداروں پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اور اقدامات میں شفافیت لائیں اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

ہنگامی حالات میں اطلاعات کی فراہمی۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں قدرتی آفات اور دہشت گردی اور دیگر ہنگامی حالات وقتاً فوقتاً پیش آتے ہیں، سٹیزن جرنلزم نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
مثال کے طور پر زلزلوں، سیلابوں، یا دہشت گردانہ حملوں کے دوران عام شہریوں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات اور ویڈیوز نہایت اہم ثابت ہوتی ہیں۔ یہ خبریں بروقت اور حقیقی ہوتی ہیں، جو کہ روایتی میڈیا کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر رائے عامہ کا اثر۔
پاکستان میں سٹیزن جرنلزم نے سوشل میڈیا کے ذریعے رائے عامہ پر بھی اثر ڈالا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر(ایکس)، اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر لوگ سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جس سے سیاسی مباحثے کا ماحول بنتا ہے اور حکومتی پالیسیوں پر دباؤ پڑتا ہے۔

منفی اثرات اور جھوٹی خبریں۔
جہاں سٹیزن جرنلزم نے پاکستانی معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیلتی ہیں، جو بعض اوقات معاشرتی عدم استحکام یا فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دیتی ہیں۔ ایسی خبریں عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر سکتی ہیں، جس کا نتیجہ اکثر پرتشدد واقعات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

روایتی صحافت پر اثر۔
سٹیزن جرنلزم کی مقبولیت نے پاکستان میں روایتی صحافت کو بھی متاثر کیا ہے۔ صحافی اب زیادہ محتاط ہو گئے ہیں اور انہیں عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روایتی میڈیا بھی اب زیادہ تیزی اور شفافیت سے خبریں فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ سٹیزن جرنلزم کے مقابلے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔

نوجوان نسل کی شمولیت
پاکستان میں نوجوان نسل سٹیزن جرنلزم میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں مہارت رکھنے والی یہ نسل سیاسی شعور اور معاشرتی مسائل پر بات کرنے کے لیے سٹیزن جرنلزم کو ایک اہم ذریعہ سمجھتی ہے۔ اس سے نوجوانوں کی آواز بلند ہو رہی ہے اور وہ معاشرتی تبدیلی کا محرک بن رہے ہیں۔

✍️حاصلِ کلام
پاکستانی معاشرے پر سٹیزن جرنلزم کے اثرات دو طرفہ ہیں۔ ایک طرف یہ عوام کو بااختیار بناتا ہے، شفافیت اور احتساب کو فروغ دیتا ہے، اور کمزور طبقوں کو آواز دیتا ہے۔ دوسری طرف، جھوٹی خبروں اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے خطرات بھی موجود ہیں، جن سے معاشرتی تفرقہ اور بدامنی پیدا ہو سکتی ہے۔ تاہم مجموعی طور پر سٹیزن جرنلزم نے پاکستان میں ایک نئی میڈیا کی روایت قائم کی ہے، جو جمہوری عمل اور عوامی رائے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

منتہائے فکر اور شاعر اہل بیتؑ

جمعہ ستمبر 13 , 2024
حمد ، نعت اور سلام کے مقبول شاعر ہیں- مدحت اہل بیت میں ان کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں
منتہائے فکر اور شاعر اہل بیتؑ

مزید دلچسپ تحریریں