تھمی تھمی تھی رہگزر، جمی جمی سی گرد تھی
جنید احمد نور کی کاوشوں کو منظوم خراج از: اکمل نذیر، بہرائچ
تھمی تھمی تھی رہگزر، جمی جمی سی گرد تھی
مسافر ادب کی شکل کتنی زرد زرد تھی
ہر ایک سمت چھائیں تھیں وہ بدلیاں گمان کی
نظر سے چھپ کے رہ گئ تھی صورت آ سمان کی
نہ جانے کتنے تارے اپنی روشنی بکھیر کر
روانہ ہو چکے تھے آ سماں سے منھ کو پھیر کر
مگر فلک کے کونے میں تھی اک کرن امید کی
پھر اس نے ان نجوم سے جو روشنی کشید کی
اسی کے باعث اور ایک تارے کا جنم ہوا
اندھیروں کا اٹھا ہوا جو سر تھا آ ج خم ہوا
جنید نام نامی ہے اس انجم منیر کا
کہ جس پہ ہے جوانی میں گمان ایک پیر کا
قلم میں اسکے دیکھئے یہ کیسی آ ب و تاب ہے
کہ جیسے لفظ لفظ میں چھپا کوئ نصاب ہے
کیا ہے جس نے نام اپنے شہر کا جہان میں
کہ جیسے بس یہی تھا تیر علم کی کمان میں
جہاں جہاں سے علم کے خزانوں کی امید تھی
ہر ایک در پہ سمجھو اس گدا نما کی عید تھی
مرتب ان کو کر کے اس نے شکل دی کتاب کی
وہ داد پائ سب سے اپنے حسن انتخاب کی
کہ جس سے اس کو شہر شہر شہرتیں عطا ہوئیں
اور اہل علم و فن کی اس کو صحبتیں عطا ہوئیں
وہی ہیں صحبتیں کہ جن کا آ ج فیض عام ہے
جہان علم و فن میں آ ج اس کا خوب نام ہے
خدا کرے کہ منزلوں کی سمت وہ رواں رہے
اور اس کا عزم خدمت ادب یونہی جواں رہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔