داود تابش کی عطا کا رخ
تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قائم
سلطان الانبیاء ﷺ سے عشق دو جہان میں ممتاز کر دیتا ہے عاشق کی فکر ایک منفرد خوشبو کا طواف کرتی رہتی ہے حضوری نصیب عاشق سمندرِ نعت سے لولو و مرجان چنتا ہے اس کے مقدر جگمگا اٹھتے ہیں قندیلِ دل روشن ہو جاتی ہے معنبر زلفوں کی خوشبو وہ اپنے اردگرد محسوس کرتا ہے حسنِ طبع اس کی نعت میں چھلکتی ہے وہ الہام سے نور کشید کرتا ہے یہ نور اس کا خامہ قرطاس کے سینے پر منتقل کرتا ہے لفظ جگ مگ جگ مگ کرتے اشعار کی زینت بنتے ہیں اسرارِ خدا اس پر منکشف ہوتے ہیں اس کی نعت ارفع ذکر سے مقام عارفاں کی طرف سفر کرتی ہے اور وہ عشق و مستی میں کہہ اٹھتا ہے
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہ طٰہٰ
خود آگاہ و خدا مست عاشق بہت قرینے سے نعت لکھتا ہے نعت لکھنے کا وصف اسے محمد و آل محمد صلى الله عليه واله وسلم عطا کرتے ہیں نعت خود سے نہیں لکھی جاتی وہاں سے عطا ہوتی ہے نعت اسی دن سے شروع ہو گئی تھی جب محمد صلى الله عليه واله وسلم کا نور خلق ہوا تھا اس کے بعد نعت الہامی کتابوں اور صحیفوں میں سفر کرتے ہوئے حضرت ابو طالب علیہ السلام تک پہنچی آپ نے نعت کہی تو بہت خوب کہی
جب کفار نے آپ محمد صلى الله عليه واله وسلم کی ہجو کہی تو اللہ رب العزت نے جوابی کاروائی کے لیے حضور سے کہا کہ صحابہ کرامؓ سے کہیں تو اُس وقت آپ کے کہنے پر حضرت حسان رضی اللہ اور حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ میدان میں آئے یوں مدینہ سے ہوتی ہوئی نعت اولیائے کرام اور صوفیائے کرام کے ذریعے ہندوستان تک پہنچی اس میں بہت قد آور شخصیات سامنے آئیں لیکن اگر تفصیل سے ذکر کیا جائے تو تبصرہ بہت طویل ہو جائے گا
حاجی داود تابش حسانی سلسلہ کا وہ موتی ہے جو اخلاص و وفا کا پیکر ہے فتح جنگ کا اردو ادب اور خاص طور پر نعتیہ حوالہ نہ صرف ان کے بنا ادھورا ہے بل کہ اگر میں یہ کہوں کہ ان کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا تو درست ہو گا کیوں کہ نعت کہنے کی نوجوانوں کو تعلیم دینا تنقیدی اجلاس بلانا اور نعتیہ محافل سجانا انھی کا خاصا ہے
اس لحاظ سے داود تابش فرخندہ بخت ہیں کہ ان کے حصہ میں نعت آئی ہے ادبی مجلہ میرے لفظ کا اجرا نعت نمبر کے ساتھ کرنا بھی ان کا اعزاز ہے
جہاں تک شعر کا تعلق ہے داود تابش کو پختہ اور بلاغت سے بھرپور شعر کہنے کا ملکہ حاصل ہے ان کا کلام سلاست بلاغت تشبیہ و استعارات کا آئینہ دار ہے کلام میں حضور سے والہانہ عشق انتہائی شائستگی سے برتتے ہیں ہر شعر میں احتیاط کا دامن بھی تھامے نظر آتے ہیں جہاں گستاخی کا دور دور تک شائبہ تک نہیں ہے داود تابش کے طرز سخن میں درویشانہ ادا ہے جو دوسروں کی خطائیں معاف کرنے کی حضوری ادا رکھتے ہیں
داود تابش اپنا تجزیہ کرتے ہیں عشقِ رسول صلى الله عليه واله وسلم میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور اپنی غلطیاں دیکھ کر اقرار کرتے ہیں اور اسے شعر کی ایسی خوبصورت کیفیت میں یوں ڈھاتے ہیں:۔
جب آٸینے کے مقابل کھڑا کیا خود کو
حضور چھوٹی بڑی پھر خطا نظر آٸی
ہمارے ملک میں ہی نہیں دنیا میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے خود غرضی لالچ طمع غیبت اور حسد نے معاشرے کے وجود کو کھوکھلا کر دیا ہے نفرت کی دیواروں نے محبت کے راستے بند کر دیے ہیں حساس دل رکھنے والے داود تابش ایسی دنیا سے فرار چاہتے ہیں انھیں صرف امان اس شہر میں ملے گی جو امن کا شہر ہے جس میں حضور اکرم صلى الله عليه واله وسلم کے نوری سانسوں کی خوشبو ہے وہ صرف کوئے نبی میں ایک جھونپڑی کی تمنا دل میں سجائے اپنے نگار خانہ ء شعر میں ڈھلے فن پاروں کا عکس ہائے جمیل یوں پیش کرتے ہیں:۔
جھونپڑی کے لیے بطحا میں جگہ مانگتا ہوں
اب نہیں شہر حریصاں میں اماں میرے حضور
فکری نظافت اوجِ سخن کا باعث ہوا کرتی ہے اس میں نکھار صرف فکر رسا لاتی ہے سرکار سے عشق فکر و عمل میں چراغ جلاتا ہوا جہاں بھر کی زندگیاں روشن کر دیتا ہے شعورِ شعر سلاست کی وجہ سے پہچان بنتا ہے اسے قاری اپنے وجد و آگہی پر رم جھم کی طرح محسوس کرتا ہے ایسا ہی ایک شعر داود تابش کا خامہ اپنی رقصِ تحریر میں لاتا ہے
رنگِ شعر اپنی لطیف صورت مسکرا کر یوں بیاں کرتا ہے:۔
پہنچ گیا ہوں بڑھاپے میں آج تک لیکن
ترے کرم سے ہیں روشن ترے گدا کے چراغ
عاشق کے لیے ہجر اور وصال دونوں لذت کا باعث ہوتے ہیں اصل میں ہجر وصال کا پیش خیمہ ہوتا ہے جتنا ہجر تڑپائے گا اتنا وصال کیف آور ہو گا دونوں ہی عشق میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں ہجر نصیب بندے عجیب سی کسک محسوس کرتے ہیں ہجر ِ رسول صلى الله عليه واله وسلم اللہ کی قریب کرتا ہے کیوں کہ اللہ اس میں بہنے والے آنسووں کا اجر عطا کرتا ہے اور کئی دفعہ لمحاتِ وصل عنایت کر کے عاشق پر سکون طاری کر دیتا ہے لیکن وصال نہ ہو تو داود تابش کی طرح اپنی محبت کا اظہار انتہائی کیف آور صورت میں یوں کرتا ہے:۔
فراق و ہجر مدینہ میں روز آنکھوں سے
بہا رہا ہوں سمندر حضور دیکھیں ناں
ہماری امیدوں کا مرکز حضور اکرم صلى الله عليه واله وسلم ہیں میدانِ محشر اور شفاعت دو ایسے موضوع ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اگرچہ قرآن میں سورہ تکویر نے قیامت کا جو منظر کھینچا ہے دل دہلا دینے والا ہے کیوں کہ میرا اللہ فرماتا ہے
”جب آسمان پھاڑ دیا جائے گا اور جب ستارے بکھر جائیں گے“
اس خوف کے عالم کے باوجود مقامِ محمود پر ہمیں سرکار کا آسرا ملے گا سرکار کی امت کے گناہ گار بندے اس وقت امید کا دامن تھامے ہوئے ہوں گے ان کی نظریں سرکار کا طواف کرتی ہوں گی سرکار کے نعت خواں اور نعت گو شاعر بھی سرکار سے امید باندھے کھڑے ہوں گے ساری امتوں کے انبیاء نفسی نفسی کہتے ہوں گے جب کہ وہاں صرف ایک آواز گونجے گی امتی امتی اور وہ آواز ہمارے آقا محمد صلى الله عليه واله وسلم کی ہو گی
اس وقت شعرا بھی نجات کی امید لگائے حضور کو دیکھتے ہوں گے داود تابش کی امیدوں کا محور بھی اس وقت حضور ہوں گے اس لیے اپنی نجات کی فکر نہیں کرتے اور اپنی اوجِ فکر کو بلند کر کے ایسا فرخندہ بخت شعر لکھتے ہیں:۔
میں شاعر شہ کونین ہوں اسی خاطر
نجات روز جزا میری ممکنات میں ہے
فنِ شعر کی جمالیاتی اور تکنیکی قدروں سے آشنا داود تابش فتح جنگ شہر میں
تشنگانِ فنِ نعت کو اپنی راہنمائی اور اخلاص سے سیراب کرتے ہیں اور یہی نعت خوانوں کی ایک کہکشاں آسمانِ مدحت پر رنگ و نور بکھیر رہی ہے نعت خوانی کئی افراد ان سے سیکھ چکے ہیں نعت خوانی اور نعت گوئی دونوں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں داود تابش کے شعر میں ندرت اور فکری عفت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اگرچہ یہ کام بہت مشکل ہے لیکن جب حضور خود عطا فرمائیں تو ایسے شعر الہام پر دستک دیتے رہتے ہیں:۔
یوں ہی کب چوم کے آنکھوں سے لگاتا ہوں اسے
زلف محبوب کی خوشبو سے بھرا ہے کاغذ
حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی نگاہِ کرم جب شریکِ حال ہوتی ہے تو خار زار راستے گلزار بن جاتے ہیں راستوں میں کہکشائیں بچھ جاتی ہیں دنیا کی ساری تابانیاں وجودِ ناعت سے لپٹ جاتی ہیں خوشبوئیں ساتھ رقص کرتی ہیں یہ سب دیکھ کر دنیا کے بادشاہ حضور کے ناعت پر حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کیوں کہ ناعت کا ہاتھ حضور صلى الله عليه واله وسلم نے پکڑ رکھا ہوتا ہے اور دنیا پیچھے پیچھے ہوتی ہے ایسی حالت میں ایسے شعر تخلیق ہوتے ہیں جو سہل ممتنع کے ساتھ ایک لطیف صورتِ حال پیدا کرتے ہیں:۔
جب وہ امت کے مددگار مجھے دیکھتے ہیں
چشم حیرت سے یہ زردار مجھے دیکھتے ہیں
انابیبِ شعری سے کِھلتے ہوئے پھول جب خوشبو سے مستنیر ہوتے ہیں تو سہل ممتنع کے ساتھ مشکل ردیف بھی ایسی بہار آفریں صورت پیدا کر دیتی ہیں کہ قاری پڑھتا جاتا ہے اور اس پر ایک عجیب سا کیف طاری ہو جاتا ہے یہ کیف اسے عشق و مستی کے رنگ میں محمد صلى الله عليه واله وسلم کے مزید نزدیک کر دیتا ہے اور وہ سرکار کی سیرت اپنا کر معاشرے کا ایک بہترین فرد بن جاتا یے داود تابش پر عطا کا رخ ان کی سیرت کا ایک پرتو ہی تو ہے جو مسلسل سفر کرتا ہوا الہام میں خوبصورت خیالات کو جنم دیتا ہے وہ دنیا کی آسائیشیں مانگتے ہی نہیں ہیں انہیں نعت کی دولت چاہیے جس کا ان پر انعام مسلسل ہے شعر ملاحظہ کیجیے جو اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے
معلوم ہے یہ کاتب تقدیر کو تابش
مانگا ہی نہیں میں نے ضرورت کے علاوہ
اللہ رب العزت نے پنجتن پاک ہمارے لیے نعمت کی صورت میں اتارے ہیں جن کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ”تم کون کونسی نعمت کو جھٹلاو گے“
اس کی دلیل یہ دوں گا کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر چلا جائے اور میزبان دنیا کا ہر کھانا اپنی بساط کے مطابق اس کے سامنے رکھے مہمان کھانا کھانے کے بعد جہاں ملے میزبان وہاں یہ کہے کہ میں نے تجھے اتنی نعمتوں سے نوازا تھا تم کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے تو یہ کہنا میزبان کی شان کو کتنا کم کر دیتا ہے دنیا کے لوگ اللہ کے بارے میں ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ وہ کھانے پینے کی نعمتیں دے کر یہ کہتا ہے کہ
”تم کون کونسی نعمت کو جھٹلاو گے“ میرے خیال میں یہ اللہ کی شان کو زیبا نہیں ہے
اللہ تعالی نے پنجتن پاک کو نعمت قرار دیا ہے جن کی کئی بار تاریخ میں جھٹلانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ تو ہدایت کی کشتی ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھ گیا وہ ہدایت پا گیا جو ان کے ساتھ نہیں بیٹھا وہ ہلاک ہو گیا
اگر کھانے کی اشیا مثلاً سیب مالٹے انگور انار گندم وغیرہ یا آنکھ کان بازو وغیرہ نعمتیں ہیں اور اللہ ان کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ
”تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاو گے“
تو پھر ہم حج پر یہ کلمات کیوں کہتے ہیں
ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
یعنی بے شک حمد نعمت اور ملک تیرے لیے ہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں
اس میں حمد اور ملک تو اللہ کے لیے ہیں لیکن اگر ہم گندم اور اناج نعمت جانیں تو اللہ تو کھانے سے پاک ہے پھر ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ نعمت بھی تیرے لیے ہے
تو اس کا جواب یہی ہے اللہ نے پنجتن پاک کو نعمت قرار دیا ہے جس کا ہم حج پر اقرار کرتے ہیں کہ یہ نعمت بھی تیرے لیے ہے
داود تابش پنجتن پاک کو اپنی مودت کا محور قرار دے کر ہدایت کی کشتی میں بیٹھ گئے ہیں اور ہدایت پا گئے ہیں اس شعر میں ان کا عقیدہ کئی در کھولتا ہوا نعمت کی گہرائی و گیرائی وا کر رہا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
یہ پانچ میری مودت کا مرکز و محور
علی و زھرا و سبطین قاسم نعمت
اللہ رب العزت نے دو جہان سرکار کے لیے خلق کیے ہیں اور قرآن آپ کی شان میں لکھا ہے جو سراپا ء ہدایت ہے یہ قصیدہ مدحت کی وہ روشنی ہے جو قیامت تک سینوں کو بقعہ ء نور بناتی رہے گی بات یہاں صرف قصیدے تک محدود نہیں ہے بل کہ اللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ
ورفعنا لک ذکرک
یعنی حبیب ! ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے
بلند اتنا کہ بلندی کے معیار پر قدغن نہیں لگائی کہ اتنا بلند ہے پوری کائنات بھی لگی رہے اس ذکر کی بلندی نہیں ناپ سکتی اور یہ ذکر جو بھی کرے گا اس کا ذکر بہت بلند ہو گا مدحِ شاہِ زمن شاعر کو بہت اونچی پرواز عطا کرتی ہے جو کہ عطا کا رخ ہے شعر ملاحظہ کیجیے:۔
پڑھیے کتاب رشد و ہدایت کی آیتیں
محسوس ہو گی آپ کو مدحت کی بازگشت
عشقِ محمد صلى الله عليه واله وسلم دلوں کو نکھارتا ہے اس میں ہجر کی جو کیفیت ہوتی ہے اسے بیان نہیں کیا جا سکتا اس کا ادراک وہی رکھتا ہے جس کے نین دیدار کی طلب میں تڑپتے ہیں ہجر کی کیفیت کو بھی ناپنا مشکل ہے ہاں ایک طریقہ یہی ہے ان کو بیان کرنے کا کہ شاعر کہہ دیتا ہے کہ جیسے جامی اور بوصیری کی صورتِ حال تھی مجھے بھی ویسی صورت حال و قال عطا فرما۔ یہ پیمانہ اپنی فکر میں شائد سما سکتا ہے لیکن اصل صورت کوئی بیان ہی نہیں کر سکتا داود تابش بھی یہی پیمانہ اس شعر میں کیسے ندائیہ انداز میں لکھتے ہیں ملاحظہ کیجیے:۔
کبھی بوصیری کی صورت عطا کریں دیدار
ترس رہے ہیں مرے نین یا رسول اللہ
مدحت نگاری آنحضور صلى الله عليه واله وسلم کے ساتھ قلبی روحانی اور باطنی تعلق کے اظہار کا نام ہے شاعر اپنے وجد و آگہی کو درِ رسول صلى الله عليه واله وسلم پر سلامی کے لیے حاضر کرتا ہے اور اپنا لکھا ہوا سنا دیتا ہے جب وہ حضوری کیفیت میں ہوتا ہے تو دل ہی دل میں اپنے گھر کو مدینہ کا ماحول سمجھ کر حضور کو نعت سنا دیتا ہے اور حضور تو ہمارا کلام سنتے ہیں داود تابش بھی اپنا کہا ہوا کلام حضور کی بارگاہ میں ایسے پیش کر دیتے ہیں ملاحظہ کیجیے
اپنے کمرے میں کٸی بار شہ والا کو
جو عقیدت سے کہی نعت سنا دی میں نے
مکہ ہو مدینہ یا جہاں کہیں بھی حضور کے مبارک قدم پڑتے گئے وہ ذرات مقدس ہوتے گئے جس جس جگہ حضور نے سانس لیا فضا معنبر ہوتی گئی لوگ آپ کی آمد کا اندازہ آپ کی خوشبو سے لگا لیا کرتے تھے کیوں کہ آپ جہاں سے گزرتے تھے ان گلیوں میں آپ کی خوشبو بسیرا کر لیتی تھی غار حرا غار ثور یا جہاں کہیں بھی آپ کے قدم مبارک پڑے وہ مقام تقدس پاتے گئے اس کیفیت کا بہترہن اظہاریہ اس شعر میں ملاحظہ فرمائیے:۔
سنگ اسود کی طرح صورت جبل رحمت
باعث عز و شرف غار حرا آپ سے ہے
داود تابش کی اشعار میں اسلوبیاتی صباحت اپنے تقدس کے ساتھ دیدنی ہے فکری عفت اشعار کے اندر واضح نظر آتی ہے جب اسم محمد کا ذکر کیا جائے تو کیف و سرور بڑھ جاتا ہے محمد صلى الله عليه واله وسلم کا اسم معنبر لینے سے دونوں ہونٹ آپس میں جڑ جاتے ہیں اور سانس اندر سینے میں رک کر کیف و سرور کا نشاں بن جاتی ہے روحانی طور پر یہ نام سکوں آور ہے ہر درد کا علاج بھی ہے آپ کسی بھی مرض میں مبتلا ہوں تو باوضو ہو کر بیٹھ جائیں اور بسم اللہ پڑھ کر اسم محمد بول کر سانس روکیں ایک طمانیت روح تک اتر جائے گی اور اللہ پاک اس نام کے وسیلے سے شفا عطا فرما دے گا بس بات یقین کی ہے یقین کے متعلق حضرت اقبال نے کیا خوب کہا تھا:۔
یقیں افراد کا سرمایہ ء تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
داود تابش بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں ہیں جو یقین کی دولت سے مالا مال ہیں اسی لیے ایسے بخت آور اشعار لکھتے ہیں ملاحظہ کیجیے:۔
اک عجب کیف ہوا روح و بدن میں محسوس
وجد میں جیسے پڑھا اسم محمد میں نے
سنبھال کر شہ والا کے نام کا رکھا
ادھر ادھر نہ گلے سے ہوا ذرا تعویذ
حافظ شیرازی نے اپنی غزل میں بہت خوبصورت بات لکھی تھی جو نعتیہ شعر ہی ہو سکتا ہے وہ کہتے ہیں:۔
مصلحت دیدِ من آنست کہ یاراں ہمہ کار
بگزارند و خمِ طُرّہ یارے گیرند
یعنی
”مجھے تو اب صرف اسی کام میں مصلحت نظر آتی ہے کہ سب دوست سارے کام چھوڑ چھاڑ کے محبوب کی زلف کے خم کی طرف متوجہ ہو جائیں“
جب ہم بھی زلفِ احمد صلى الله عليه واله وسلم کے اسیر ہو جائیں گے تو ہماری ترجیحات بدل جائیں گی ہمارا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا حسنِ کردار اخلاق و سیرت سب حضور کی سیرت کے مطابق ہو جائیں گے ہماری کیا ترجیحات ہیں ہمارے حضور جانتے ہیں ہمارا روز کا عمل آپ اور آپ کی اہل بیت عظام دیکھتے ہیں اسی صورتِ حال کو داود تابش اپنے شعر کے حسنِ بیاں میں کیا رعنائی دیتے ہیں ملاحظہ کیجیے:۔
سرور دیں کو علم ہے تابش
کس کی اس عہد میں ہے کیا ترجیح
ہمارے محمد صلى الله عليه واله وسلم اللہ رب العزت کے بعد سب کچھ ہیں انھی کے لیے ہم بھی تخلیق کیے گئے ہیں وہی حسن کائنات ہیں ہم جانتے ہیں کہ
اللہ پاک کے حبیب راحتِ قلوبِ عاشقاں ہیں وہ نور دیدہ ء مشتاقاں ہیں وہ صورتِ صبحِ درخشاں ہیں وہ پشت پناہِ رفتگاں ہیں وہ موجبِ نازِ عارفاں ہیں وہ باعثِ فخرِ صادقاں ہیں وہ رحیمِ بے کساں ہیں وہ حبِ غریباں ہیں وہ شاہِ جناں ہیں وہ جانِ جاناں ہیں وہ قبلہ ء زہراں ہیں وہ کعبہ ء قدسیاں ہیں وہ نیرِ درخشاں ہیں وہ نجمِ تاباں ہیں وہ ماہِ فروزاں ہیں وہ صبحِ درخشاں ہیں وہ جلوہ ساماں ہیں وہ مونسِ دلِ شکستگاں ہیں
وہ مرکزِ انوارِ رحمانی ہیں وہ مصدرِ فیوضِ یزدانی ہیں وہ قاسمِ برکات حمدانی ہیں وہ دانشِ برہانی ہیں وہ صابر و شاکر ہیں وہ مدثر و مزمل ہیں وہ مزمل و مرسل ہیں وہ انتہائے کمال ہیں وہ منتہائے جمال ییں وہ مبنع خوبی و کمال ہیں وہ بے نظیر و بے مثال ہیں وہ فخرِ جہاں ہیں وہ عرشِ مکاں ہیں
وہ شارعِ لا الہ یں وہ خاتم الانبیا ہیں وہ چشم امواجِ بقا ہیں وہ چشمہ ء علم و حکمت نازش ہیں وہ سندِ امامت ہیں وہ غنچہ راز وحدت ہیں وہ جوہر فردِ عزت ہیں وہ ختمِ دورِ رسالت ہیں وہ محبوبِ رب العزت ہیں وہ مالکِ کوثر و جنت ہیں وہ سلطانِ دین ملت ہیں وہ شمعِ بزم ہدایت ہیں وہ ایسے اونچے ذکر والے ہیں جس کی انتہا نہیں بتائی گئی تو پھر ایسے کریم آقا کی ثنا کیوں نہ کی جائے داود تابش کے نگار خانہ ء شعر میں ڈھلے فن پاروں کا عکس ہائے جمیل ان درخشاں اشعار میں ملاحظہ فرمائیے:۔
لفظ الہام کی صورت میرے دل پر اتریں
میرے اشعار میں آ جاۓ اثر میرے حضور
یہ نعت کی برکت ہے شب و روز طبیعت
اس نور مجسم سے لگی اور زیادہ
سر ورق پر بطور شاعر تم ایسا کرنا
درود پڑھ کر سلام لکھنا اگر جو لکھنا
جلا رہا ہوں چراغ ثنا غریب نواز
اسی لیے ہے مخالف ہوا غریب نواز
تبصرہ کی طوالت بار بار قلم کو روک رہی ہے اس لیے اس دعا کے ساتھ اجازت کے طالب کو اجازت دیجیے کہ اللہ پاک بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے صدقہ میں داود تابش کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور وہ اسی طرح نعت رقم کرتے رہیں۔ آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔