جو جیتا وہی سکندر
انسان کی کوئی ایک بھی غیر معمولی صلاحیت اسے کامیابیوں اور عظمت کی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے۔ آپ زندگی کے کسی بھی میدان میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دیں جو دوسرا کوئی شخص انجام نہ دے سکے، دنیا بھر میں لوگ دیوانہ وار آپ کو سراہنیں لگیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیئے آپ کے اندر شوق اور جذبہ و جنون بھی اسی قدر غیر معمولی نوعیت کا ہونا چایئے، جو دنیا بھر میں دوسرے کسی بھی انسان کے پاس نہ ہو۔
اگر دنیا کے انفرادی کھیلوں کی بات کی جائے تو اس میں بہت سے عظیم کھلاڑیوں کی مثالیں موجود ہیں جن میں جیولن تھرو کے میدان میں اب پنجاب کے سپوت کھلاڑی ارشد ندیم نے بھی اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ جہانگیر خان نے سکوائش کے کھیل میں لگاتار 555 فرسٹ کلاس عالمی میچ کوئی ایک بھی میچ ہارے بغیر جیتے تھے۔ یہ دنیا کے کسی بھی کھیل کا بظاہر ایک نہ ٹوٹ سکنے والا ریکارڈ ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں بھی انفرادی کارکردگی کے بل بوتے پر کوئی کھلاڑی اپنا نام امر کر سکتا ہے اور اس میں بعض دفعہ کچھ ایسے ریکارڈز بھی قائم ہو جاتے ہیں کہ جن کا توڑنا بعض دفعہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر کرکٹ کے کھیل میں ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی برائن لارا کے پاس فرسٹ کلاس اور ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے کے دونوں ریکارڈ ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ رنز بنانے کے یہ دونوں ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے میں وہ دونوں بار ناٹ آوٹ رہے۔ برائن لارا فرسٹ کلاس کرکٹ میں 501 اور ٹیسٹ کرکٹ میں 400 رنز بنا کر ناٹ آوٹ رہے۔ برائن لارا نے یہ چار سو رنز 582گیندوں پر سنہ 2004ء میں ایس ٹی جونز کے اینٹی گوا کرکٹ گراونڈ میں چوتھے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں انگلینڈ کے خلاف بنائے اور وہ چار سو رنز بنانے والے دنیا کے نہ صرف پہلے کھلاڑی بن گئے بلکہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں یہ کارنامہ انجام دیتے وقت چار سو کا انفرادی سکور بنا کر ناٹ آوٹ بھی رہے تھے۔
زندگی میں آپ کے اندر ان مٹ ہمت و حوصلہ ہو تو آپ دنیا میں کوئی بھی ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں جس میں غربت یا حالات بھی آپ کے آڑے نہیں آ سکتے ہیں۔ ارشد ندیم کی طرح سکوائش کے کھلاڑی قمر زمان صاحب کا تعلق بھی غریب گھرانے سے تھا اور وہ نئی سکوائش گیند خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سکوائش کورٹ سے پرانی اور پھٹی ہوئی گیندیں اٹھا لاتے تھے جنہیں ان کی والدہ سی دیتی تھیں اور پھر قمر زمان صاحب گیند پھٹ جانے کے ڈر سے آہستہ آہستہ کھیلتے تھے اور یوں ان کی مشہور "ڈراپ شاٹ” کی مہارت دنیا کے سامنے آئی تھی۔
دنیا کے مشہور باکسر محمد علی (کلے)، جہانگیر خان اور راجر فیڈرر اپنے زمانے کے لیجنڈز کھلاڑی تھے اور ان تینوں کھلاڑیوں میں مخالفین کو ہرانے کی ایک تیکنیک قدرے مشترک تھی کہ اپنے مخالف کھلاڑیوں کو تھکا کر ہراتے تھے۔ یہ تینوں کھلاڑی ابتدا میں لمبی گیم کھیلتے تھے اور جب مخالف کھلاڑی کا سٹیمنا جواب دے جاتا تھا تو پھر ان کی جانب سے جارحانہ کھیل شروع ہوتا تھا جس کی تاب لانے کی اہلیت کسی میں نہیں رہتی تھی. جہانگیر خان سکوائش کا شہزادہ تھا۔ وہ امسال 11اگست کو دبئی میں منعقدہ پاکستان کی آزادی کی تقریب میں موجود تھا۔ سکوائش کے کھیل کا یہ پاکستانی ہیرو 17سال کی عمر میں ناقابل تسخیر ہونے سے پہلے جیف ہنٹ سے ٹورنامنٹ کا فائنل ہارا اور جیف ہنٹ نے جب سکوائش میں 7مرتبہ برٹش اوپن جیتنے کا ریکارڈ بنایا تو اس نے اپنے انٹرویو میں جہانگیر خان کے ناقابلِ تسخیر ہونے کی پیش گوئی کی تھی جو بعد میں سچ ثابت ہوئی۔ جیف ہنٹ نے کہا تھا کہ جو میچ اس نے تجربے کی بنیاد پر جیتا ہے مدمقابل کے پاس اس سے آدھا تجربہ بھی ہوتا تو وہ کبھی جیت نہ پاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں تھک کر چور تھا اور جہانگیر خان ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ تب جہانگیر خان کے پاس وہ فن آ چکا تھا کہ وہ مدمقابل کھلاڑی کو اپنے سے 2گنا زیادہ بھاگنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اس سے پہلے تک جہانگیر خان کے بارے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ سکوائش کے عالمی مقابلوں میں حصہ لے گا اور ورلڈ ریکارڈ قائم کرے گا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق وہ کورٹ میں زیادہ بھاگنے سے معذور تھا۔
اسی دوران چند سال پہلے جہانگیر خان کو ہرنیا کے آپریشن نے اس مقام تک پہنچایا تھا۔ پھر اسی سال ان کے بھائی کی سکوائش کورٹ میں ہارٹ اٹیک سے موت نے جہانگیر خان کو انٹرنیشنل کورٹ میں اتارا۔ ٹینس اور اس سے پہلے سکوائش ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں جہانگیر خان کے بچپن میں اس سے زور سے کھیلنے کی وجہ سے بال پھٹ جایا کرتی تھی۔ اس سے اگلی مرتبہ جہانگیر خان نے نہ صرف برٹش اوپن جیتا بلکہ جنون ایسا کہ انہوں نے جیف ہنٹ کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔
جہانگیر خان سنہ 1982ء سے 1992ء تک 555 مقابلوں میں ناقابل شکست رہے جس دوران انہوں نے 6ورلڈ اوپن اور 10برٹش اوپن ٹائٹل جیتے اور سنہ 1997ء میں سکواش کے پہلے وائس پریذیڈنٹ منتخب ہوئے۔ ان کی جیت کا یہ ریکارڈ "ورلڈ گنیز بک” میں بھی شامل ہے۔
فطرتا عظیم انسان کے سامنے دنیا میں کچھ بھی ممکن ہے۔ انسان کے اندر سچی لگن، جذبہ اور ناقابل شکست ہمت ہو تو ریکارڈ بنتے ہی ٹوٹنے کے لیئے ہیں۔ جیت کا کوئی مقدر نہیں ہوتا بلکہ مقدر انسان کا ہوتا ہے۔ آپ زندگی کے کسی بھی میدان میں ہیں جب آپ ایک بار ٹھان لیتے ہیں کہ "تخت یا تختہ”، تو پھر
جیت آپ کا مقدر بن جاتی یے کہ سکندر وہی بنتا ہے جو جیت جاتا ہے اور "فاتح” کہلاتا ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔