آزادی کے موقع پر ارشد ندیم کا گولڈ میڈل
اس سال یوم آزادی کی تقریبات میں اہم ترین خبر اولمپک کھیلوں میں ارشد ندیم کا پاکستان کے لیئے سونے کا تمغہ جیت کر لانا رہا۔ لیکن ہم وہ بدمست قوم ٹھہرے ہیں کہ ہم نے اس قابل فخر کارنامہ کو بھی متنازعہ بنانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ جب چند روز قبل ارشد ندیم کی وطن واپسی ہوئی تو اس کے جہاز کو اترتے وقت حسب معمول واٹر شاور دیا گیا مگر وہ جونہی علامہ اقبال ایئرپورٹ لاہور پر اترے تو انہیں ایک ایسا سیاسی بیان پڑھنے کو دیا گیا کہ جو کھیلوں کی سپورٹس مین سپرٹ کے بلکل برعکس تھا۔ اس تمغہ کو سیاست کی نظر کرنے کا یہ سلسلہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں انڈیا کے نیرج چوپڑا کو شکست دے کر جیولن تھرو کا 118 سالہ قدیم ریکارڈ توڑا اور 1984ء کے بعد پہلی بار پاکستان کے لیئے کوئی سونے کا تمغہ جیتا۔ ارشد ندیم نے جونہی یہ کامیابی پاکستان کے نام کی تو پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز نے ارشد ندیم کے لیئے 10کروڑ اور سندھ حکومت نے ان کے لیئے 5کروڈ روپے کے انعامات کا اعلان کیا۔ ان انعامات پر جہاں اعتراضات اٹھائے گئے وہاں وزیراعظم شہباز شریف کی کھیلوں میں دلچسپی کو واضح کیا گیا اور یہ ڈس انفارمیشن بھی چلائی گئی کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے ڈیپارٹمنٹل کھیلوں پر پابندی لگا دی تھی۔ بقول شخصے کچھ لوگ تو حکومت پر چڑھائی کی غرض سے یہاں تک باتیں کر رہے تھے کہ ارشد ندیم پیسے مانگ تانگ کر اولمپکس مقابلوں میں حصہ لینے لئے گیا تھا، حکومت نے کوئی تعاون نہیں کیا تھا اور اسی طرح کچھ لوگ واپڈا میں 18ویں گریڈ کی ان کی ملازمت سے انکاری تھے حالانکہ وہ خود بتاتے ہیں کہ 2015 سے لے کر 2021 تک جیتے جانے والے میڈلز کے پیچھے ڈیپارٹمنٹ کی نوکری اور حوصلہ افزائی کا بڑا ہاتھ رہا اور پھر عمران خان نے یہ ڈیپارٹمنٹ ہی ختم کر ڈالے۔
سوشل میڈیا پر باقاعدہ یہ تشہیری مہم چلائی گئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے رات ارشد ندیم کی کامیابی کو خود بیٹھ کر ٹی وی پر دیکھا اور بے حد مسرت کا اظہار کیا۔
پاکستان کے لئے ارشد ندیم نے یہ کامیابی 3دہائیوں کے انتظار کے بعد حاصل کی۔ یہ ارشد کے کریئر کی سب سے بڑی جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔ ارشد نے اس مقابلے میں اپنی آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی۔جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ ارشد کے دیرینہ حریف اور دفاعی چیمپیئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا جنھوں نے 89.45 میٹر کی تھرو پھینکی۔ یہ رواں برس میں ان کی بہترین تھرو تھی۔ کانسی کے تمغے کے حقدار گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹر قرار پائے۔ ارشد ندیم اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے جبکہ کوئی بھی میڈل جیتنے والے تیسرے پاکستانی ہیں۔
ان سے قبل سنہ 1960ء میں پہلوان محمد بشیر نے اٹلی کے شہر روم اور سنہ 1988ء میں باکسر حسین شاہ نے جنوبی کوریا کے شہر سیول اولمپکس میں کانسی کے تمغے جیتے تھے۔
ارشد ندیم کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان اولمپکس میں سنہ 1992ء کے بعد پہلی مرتبہ کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ طلائی تمغے کے لئے پاکستان کا انتظار اس سے بھی کہیں زیادہ طویل تھا کیونکہ پاکستان نے اولمپکس میں اپنا آخری طلائی تمغہ سنہ 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں جیتا تھا۔
ارشد کی اس کامیابی کے بعد اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے کل تمغوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے جن میں سونے اور کانسی کے چار، چار جبکہ چاندی کے تین تمغے شامل ہیں۔ ان 11 میں سے 8 تمغے ہاکی جبکہ باقی 3 جیولن تھرو، ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے گئے ہیں۔
پاکستان کے لیئے ارشد ندیم نے یہ کارکردگی دکھا کر دنیا بھر میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ لیکن خود ہمارے سیاسی بزرجمہروں نے اس کامیابی کو بھی سیاست کی نظر کر کے گہنا دیا۔ ہم پاکستانیوں سے بہتر قوم ہونے کا ثبوت تو ارشد ندیم کے مقابلے میں شکست کھا جانے والے بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا کی ماں نے دیا جب کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کا بیٹا پاکستانی کھلاڑی سے ہار گیا ہے اور اسے چاندی کا تمغہ ملا ہے تو انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: "ارشد ندیم بھی میرا بیٹا ہے۔” نیرج کی ماں نے کہا کہ ہمیں اپنا سلور میڈل بھی گولڈ میڈل ہی لگتا ہے جو ارشد ندیم کے گلے میں ہے کیونکہ وہ بھی ہمارا ہی بیٹا ہے۔ ہر کوئی بہت محنت کرنے کے بعد اس مقام تک پہنچتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ایک اچھی قوم بننا بھی ایک سفر ہے جسے مکمل کرنے میں ابھی پاکستان کو مزید کئی دہائیاں درکار ہیں۔ جو قومیں سیاست اور کرسی کی جنگ کرتی ہیں وہ قومی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ قیام پاکستان سے استحکام پاکستان کا سفر اسی صورت میں پورا ہو گا جب ہم اپنی جنگ کی بجائے پاکستان کی جنگ لڑیں گے۔
ارشد ندیم پاکستان کا قومی فخر ہے جس نے دنیا بھر میں قیام پاکستان کے اس مہینے میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ آج پوری دنیا میں "پاکستان زندہ باد” کے نعرے گونج رہے ہیں اور سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔ ارشد ندیم تم جیو ہزاروں سال، ہمیں تم سے پیار ہے۔ سچا لیڈر وہی کہلائے گا جو نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے گا اور ان کو مثبت راستے پر لگائے گا۔ ناکہ وہ ایسے نوجوان کی کامیابی کو اپنی تشہیر کے لیئے استعمال کرے گا۔ ارشد ندیم تم ہمارے لیئے قابل فخر ہو۔ پوری قوم اس سفر کو مکمل کرنے پر تمہیں بہت بہت مبارک باد پیش کرتی ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔