غرباء کے فارم ہاوسز
چند روز پہلے ایک اچھی خبر یہ آئی کہ اسلام آباد میں فارم ہاوسز پر "کیپیٹل ویلیو ٹیکس” لگا دیا گیا ہے۔ فنانس بل 25-2024 کے تحت 2 سے 4 ہزار گز کے فارم ہاوس پر 5 لاکھ روپے کیپیٹل ویلیو ٹیکس لگے گا۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ ٹیکس ماہانہ ہے یا سالانہ ہے۔ لیکن ٹیکس کا مطلب سالانہ ہی ہے ورنہ فارم ہاوسز کے مالکان حکومت پر چڑھ دوڑتے۔ ایک یہ بھی وجہ ہے کہ ان کی ناراضگی اتنی قہر آلود نہیں ہو سکتی ہے کہ فارم ہاوسز کے یہ امراء بھی مراعات یافتہ طبقہ میں آتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی امیر کبیر ہے تو اس کا اسٹیبلشمنٹ، پولیس، انتظامیہ یا بلاواسطہ حکومت میں کچھ اثرورسوخ ضرور ہوتا ہے۔ اسی سہولت کاری کے بل بوتے پر وہ اپنے فارم ہاوسز میں بیٹھ کر حکومتوں سے حاصل شدہ مراعات کی قیمت پر گل چھریاں اڑاتے ہیں۔ "فارم ہاو’س” ویسے بھی کچھ ایسی جگہ ہے جہاں سے عیاشیوں کی بو آتی ہے۔ پاکستان کے کچھ فارم ہاوسز یا بنگلہ نما ڈیروں میں تو بڑے بڑے پارٹی حال بنے ہوئے ہیں اور جہاں "ڈانس فلور” بھی تعمیر کیئے گئے ہیں جن کے گرد بیٹھ کر ہماری "اشرافیہ” داد و عیش دیتی ہے اور گرم و ٹھنڈے مشروبات نوش کرتی ہے۔ اس کے بدلے اگر ایک فام ہاوس پر محض 5 لاکھ روپے کا ٹیکس لگایا گیا ہے تو یہ اتنی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس ٹیکس کے لگنے سے فارم ہاوسز رکھنے والے شاہی خانوادے خوش ہوئے ہونگے کہ وہ بھی حکومت کی "مہمان نوازی” کرنے کا ٹیکس دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔
اسی روز اس کے ساتھ ہی ایک دوسری خبر یہ آئی کہ "ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن ونگ” قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ پاکستان کی عوام پر ایک ماہ میں یکے بعد دیگرے تین بار بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا گرایا گیا بم فارم ہاوسز پر لگائے گئے معمولی ٹیکس کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ خطرناک حملہ ہے۔ پاکستان میں امیر لوگ امیر ترین ہیں اور غریب لوگ غریب ترین ہیں۔ فارم ہاوسز رہنے کے لیئے نہیں بنائے جاتے ہیں بلکہ عیاشی کرنے کے لیئے سجائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں فارم ہاوسز کا تصور "لگثری لائف سٹائل” کی بدنما علامت ہے۔ ایک بار ذہن پر زور دے کر آپ ہی سوچیں اور فیصلہ کریں کہ 25 کروڑ کی عوام میں کتنے ہزار افراد کے پاس فارم ہاوس ہونگے۔ اوپر سے خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد میں واقع فارم ہاوسز پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس میں پاکستان میں واقع دیگر فارم ہاوسز کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس پر مستزاد پورے اسلام آباد یا چک شہزاد میں چند ہی گنتی کے فارم ہاوسز ہونگے۔ بلفرض کل فارم ہاوسز کی تعداد دو درجن بھی ہو (جو نہیں ہے) تو اس ٹیکس سے کیا وفاقی حکومت کی آمدن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو جائے گا؟ میرا موقف یہ نہیں کہ حکومت ان فارم ہاوسز پر ٹیکس نہ لگاتی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایسے فارم ہاوسز پر اتنا کم ٹیکس کیوں لگایا گیا ہے یا حکومت ایسے دیگر امراء اور مراعات یافتہ طبقے پر یکسر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتی ہے؟ فارم ہاوسز تو کاشتکاری کے کچھ رقبے پر ایک ڈیرا ہی ہے مگر ان کے پیچھے جو پوری کہانی ہے حکومت کو اسے ختم کرنا چایئے تھا جو وہ نہیں کرنا چاہے گی کیونکہ حکومت خود اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہے۔
اسی دوران پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے ہاتھوں ستائ ہوئی عوام کے ساتھ تلخ ترین ظلم ہے کہ 3 اعشاریہ 41 روپے بجلی اور پٹرول و ڈیزل میں 8 روپے تک اضافے کا امکان ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ سارا کھیل حکومت نے کمپنیوں اور آئ پی پیز سے مبینہ ملی بھگت کرنے کے بعد درخواست دے کر کھیلا جس کے بعد ذرائع کے مطابق کمپنیوں کو اربوں روپے ہر صورت دلائے جائیں گے۔
ادھر ایک یہ رپورٹ بھی سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف نے ٹیکسوں سے متعلق بیشتر مدوں میں رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے جس وجہ سے حکومت کیلئے 250ارب روپے کا مالیاتی فرق پورا کرنا ایک چیلنج ہے۔ اس وقت جہاں ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے تجارت اور بیمار صنعتوں کو ریلیف فراہم کیا جانا بنیادی تقاضا ہے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس شعبے کی شرح میں تخفیف سے پی ایس ڈی پی 1400 سے گھٹ کر 1150 کی سطح پر آ جائے گا جس وجہ سے عام آدمی بجلی و گیس کے ہوشربا بلوں کی بمشکل ادائیگی کے بعد غریب گھروں کو اپنا چولہا جلانا اور بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جائیں گے۔
اگر پاکستان میں واقع کل فارم ہاوسز کے اعداد و شمار اکٹھے کیئے جائیں تو پتہ چلے گا یہ تعداد اتنی کم ہے کہ یہ کروڑوں کی تعداد میں موجود پاکستان کی غریب عوام کے مقابلے میں بہت قلیل ہے بلکہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر حکومت ملک سے مخلص ہے اور ٹیکسز کی کولیکشن میں بھی اخلاص دل سے میدان میں اترنا چاہتی ہے تو پھر ٹھیک ہے عوام پر مہنگائی کا طوفان اترنا چایئے۔ جیسے پہلے حکومت نے صنعتوں پر بجلی کی قیمتوں میں کمی اور متوسط و غریب عوام کے زیر استعمال بجلی میں اضافہ کیا وہ معاشی ترقی چاہتی ہے تو میرا مشورہ ہے اب بھی وہ ٹیکسز اور مہنگائی کا بوجھ عوام پر ڈالے۔ ان فارم ہاوسز کے مالکان بہت غریب ہیں۔ ان میں بہت سوں کا تعلق جاگیرداری، صنعت، سیاست، بیوروکریسی اور مقتدرہ وغیرہ سے ہو گا، انہیں غریب سمجھ کر اگر پہلے کچھ سٹاف، مفت بجلی، کاریں اور بجٹ دیا جاتا ہے تو ان کے فارم ہاوسز پر یہ ٹیکس بھی نہیں لگنا چایئے تھا، کیونکہ یہ واقعی بہت غریب ہیں۔
Title Image by Tibor Lezsófi from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔