تربیت اولاد (حصہ دوم)
مصروف والدین
انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ انسان زمین پر رب کا نائب ہے ۔ انسان کو ایمان کے بعد ملنے والی بڑی نعمتوں میں سے عظیم نعمت اولاد ہے ۔ یہ عظیم نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کٹھن امتحان بھی ہے اور بات بھی سچ ہے جس کام کا انعام بڑا ہو وہ ہوتا بھی کافی مشکل طلب ہے ۔ والدین ہونا ایک 24 گھنٹے اور سال کے 365 دن کی ذمہ داری ہے ۔ عام طور پر جب آپ نوکری کرتے ہیں تو کام ختم ہونے کے بعد چھٹی ملتی ہے ہفتے میں ایک دن آرام کا ہوتا ہے ، عید شب رات پر بھی چھٹیاں ملتی ہیں نوکری یا کاروبار میں آپ کی کارکردگی میں تسلسل کی کمی بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ ایسا کام ہے جو کردار کا تسلسل مانگتا ہے اور پھر چھٹی بھی نہیں ہے لیکن اگر ااپ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے میں کامیاب ہو گئے تو انعام کے طور پر آپ کی یہ دنیا صور ہی جائے گی آخرت میں بھی اجر عظیم ہوگا ۔ اب بات موضوع کی کہ آج کل کے والدین کے پاس تو وقت ہی نہیں ہے والد کے ساتھ والدہ بھی اکثر گھروں میں کام کرتی ہیں تب جا کہ بچوں کے خرچے اور خواہشات پوری ہوتی ہیں ان کے سکولوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں مہنگے موبائل لے کر دیتے ہیں تو اکثر کا شکوہ یہ ہوتا ہے کہ تربیت اولاد کے لیے وقت کہاں سے نکالے کچھ والدین کا تو کہنا یہ ہے کہ یہ کام بھی سکول والے کر کے دیں اصل میں اولاد دوسری نعمتوں کی طرح بغیر مانگے مل جاتی ہے تو اس کی قدر بھی نہیں ہے یہ والدین جو خود کو مصروف بتا کر یہ ذمہ داری سے جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں ذرا ان لوگوں سے رابطہ کریں جن کے ہاں کئی عرصے سے اولاد نہیں پھر ان میں یہ جذبہ پیدا ہوگا ۔ بہرحال مصروف دنیا میں مصروف لوگوں کی خدمت میں ادب سے گزارش ہے کہ تربیت اولاد کا تعلق وقت سے ہے ہی نہیں آپ کی اس بات سے بھی متفق ہوں کہ کچھ والد بچوں کے سونے کے بعد آتے ہیں اور جاگنے سے پہلے چلے جاتے ہیں کچھ اولاد کی خاطر ملک میں ہوتے ہی نہیں ایک دفعہ ایک دوست نے سوال پوچھا کہ میں تو دو سال کے بعد پروفیسر گھر جاتا ہوں ۔ میں اپنے بچوں کی تربیت اپنے بچوں کی تربیت کیسے کروں ۔ بہت ادب سے عرض کی کہ یہ تمام والدین پہ لازم ہے پہلی اور اہم بات یہ کہ بچے تقریر سے نہیں سیکھتے ہیں ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ ہمارے بچے وقت کے پابند ہو لیکن اکثر مائیں بچوں کو سکول کے لیے جگاتی ہیں فجر کے لیے نہی تو وہ کیسے وقت کے پابند ہوں گے اسی طرح فنکشن اور پارٹیوں میں دیر سے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اس کا اسان کام ہے آپ مہمان ہے یا میزبان سامنے والے سے وقت لیں پھر وقت کی بھر پور پابندی کیجئے
کچھ دن پہلے ایک عالم دین کی دعوت کی ۔ مغرب کا وقت طے ہوا حضرت عشا کے بعد تشریف لائے معصوم بچے گھر میں سوال پوچھتے رہے کہ کیا یہ وقت کے پابند نہیں ہے اسی طرح آپ اپنے بچے کے ساتھ جتنا بھی وقت گزارتے ہیں خواہ پانچ ہی منٹ کیوں نہ ہوں وہ بچے سے اس اور اس سے پہلے بچوں کے خالق کے ساتھ مخلص ہوں آج بظاہر ایک پڑھے لکھے شخص جو کہ بچوں کو سکول سے گھر لے کر جا رہا تھا اچانک ایک ریڑی والے کی وجہ سے ان کا راستہ رک گیا تو حضرت نے ایسے الفاظ غلیظہ کا استعمال کیا جو یہاں لکھنا بھی مناسب نہیں ، ان کی نسبت ایک دوسرے شخص نے بڑے ادب سے بزرگوں کو کہا کہ بھائی صاحب آپ اپنی ریڑھی سائیڈ پہ کر کے اپنا کام جاری رکھیں جو بڑی خوشی سے انہوں نے مان لیا ۔ اب میرا یہاں پہ سوال ان تین خاموش کرداروں کے متعلق ہے جو موٹر سائیکل پہ بیٹھے تھے کہ کیا بڑے ہو کر مولانا طارق جمیل یا کوئی اور مہذب شخص کی طرح بن پائیں گے یقینا آپ کا جواب ہوگا کہ نہیں وہ بھی اپنے باپ کی طرح جذباتی اور غیر مہذب شخصیات ہی ہوں گی اس لیے والدین کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ بچے ہی آپ کے بعد آپ کا نام زندہ رکھیں گے یہ آپ پر منحصر ہے کہ یہ لوگ آپ کو اچھے یا برے الفاظ میں یاد رکھیں۔ بچے آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے یا عذاب مسلسل ۔ یہ بھی آپ نے خود طے کرنا ہے وہ ایک قصائی نما ڈاکٹر ہو یا ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح کا مخلص اور یونس خان جیسا مخلص شخص بنے یا محمد آصف جیسا شخص جو ملک کی بدنامی کا سبب بنا ہو خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کرنے سے پہلے اپنی تربیت کریں اور خود کریں اور جو خوبیاں اپنے بچوں میں کل پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ اج اپنے اندر پیدا کر لیں سچ بولیں ، حلال کمائیں اپنے والدین کو عظیم نعمت سمجھیں کل اپ کے بچوں کو اپ پر فخر ہوگا پھر چاہے آپ کے پاس وقت ہو یا نہ ہو اپ کے بچے بغیر کسی محنت کے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ آپ کا نام بھی روشن کریں گے ذرا نہیں مکمل غور کرنے کے بعد عمل بھی کیجے
Title Image by Engula Mari from Pixabay
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔