موبائل بیلنس پر نان فائلرز سے 90% ٹیکس لینے کا فیصلہ

موبائل بیلنس پر نان فائلرز سے 90% ٹیکس لینے کا فیصلہ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی طرف سے نان فائلرز سے موبائل بیلنس کے 100 روپے کے لوڈ پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو 10% سے بڑھا کر کے 90% کرنے کے حالیہ فیصلے نے صارفین کے لیے (جو سالانہ 500,000 PKR سے زیادہ بیلنس لوڈ کر رہے ہیں) تنقیدی بحث کو جنم دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ یہ اقدام ٹیکس میں شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے محصولات کی وصولی کو بڑھانے کی حکومت کی کوششوں اور حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ تاہم اس طرح کے غیر سنجیدہ اور امتیازی سلوک والے اقدامات سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بیرونی سرمایہ کار ٹیلی نار اور زونگ اپنی سروس ختم کرسکتے ہیں جس سے صارفین کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اس اقدام کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز پر ان کے برے اثرات کے ساتھ ساتھ حکومت کی کارکردگی پر بھی بے شمار سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حالیہ انکم ٹیکس جنرل آرڈر کے ذریعے جن پانچ لاکھ ستر ہزار سے زائد نان فائلرز کی فہرستیں جاری کی گئی ہیں ان پر انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے تک نوے فیصد اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جائے گا۔


تاریخی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی اپنی ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے اور محصولات کی وصولی کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ رسمی ٹیکس نیٹ سے باہر ہونے کی وجہ سے ٹیکس کا سارا بوجھ سرکاری ملازمین اور عام لوگوں پر پڑتا ہے۔ حکومت کی غیر سنجیدہ ٹیکس پالیسی، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو غیر ضروری ٹیکس چھوٹ دینے کی وجہ سے سارا بوجھ اکثر پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں خصوصاً سرکاری ملازمین پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ اس تناظر میں موبائل بیلنس پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ 2015 میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کے اقدام کے طور پر کیا گیا تھا۔ پری پیڈ و پوسٹ پیڈ نان فائلرز کی جانب سے لوڈ کئے جانیوالے بیلنس سے خودکار سسٹم کے ذریعے نوے فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں کٹوتی کرکے ایف بی آر کو جمع کرایا جائے گا۔ اگر کوئی صارف سو روپے کا بیلنس لوڈ کروائے گا تو اس میں سے نوے روپے ایف بی آر کو جائیں گے۔اگر موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے ان نان فائلرز کی سمز بلاک کرنے کے باوجود بھی انہوں نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے تو اس صورت میں اگر وہ کوئی دوسری موبائل فون سم نکلوا کر استعمال کرتے ہیں تو اس پر بھی نوے فیصد اضافی ٹیکس دینا پڑے گا۔
ہائی ویلیو موبائل بیلنس استعمال کرنے والوں کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو 10بڑھانے کا فیصلہ متوسط اور کم آمدنی والے طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کو زیادہ کرنے کی جانب ایک ناانصافی پر مبنی قدم تصور کیا جائے گا۔ ٹیکس کی شرح کو زیادہ کرکے، حکومت کا مقصد ٹیکس دینے کی تعمیل کی ترغیب دینا اور ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ تاہم اس حکمت عملی پر عوام اور غریب طبقے نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نان فائلرز کے ہر دفعہ موبائل اور ڈیٹا لوڈ پر بھی اضافی ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ نان فائلرز کی سمز بند کروانے کے لیے ان کا ڈیٹا پہلے ہی پی ٹی اے اور ٹیلی کام کمپنیوں کے سپرد کیا جاچکا ہے۔
اگرچہ ٹیکس کی شرح کو کم کرنے سے اعلیٰ قدر والے موبائل صارفین کے درمیان زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینے کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے، لیکن اگر یہ مؤثر نفاذ کے اقدامات کے ساتھ متوازن نہ ہو تو یہ ٹیکس کی مجموعی آمدنی میں بھی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ مزید برآں کم آمدنی والے صارفین پر اثرات جو ٹیکس کی کم شرح کی حد تک نہیں پہنچ سکتےتشویش کا باعث ہے۔
مزید برآں ٹیکس وصولی کا بوجھ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں پر ڈالنے کے فیصلے سے عملی اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہ کمپنیاں صارفین پر اضافی اخراجات کیے بغیر ٹیکس کے نئے نظام کو مؤثر طریقے سے نافذ اور اس کا انتظام کر سکیں۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کیا جائے:
بہتر نفاذ: ایف بی آر کو اپنے ٹیکس نفاذ کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام اہل ٹیکس دہندگان بشمول اعلیٰ قیمت والے موبائل صارفین، اپنی ٹیکس ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
پروگریسو ٹیکسیشن: ٹیکس کے مزید ترقی پسند نظام کو نافذ کرنے پر غور کیا جانا چاہیے جو آمدنی کی سطح کی بنیاد پر ٹیکس کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔
شفافیت اور جوابدہی: ٹیکس محصولات کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس میں شفافیت کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانے میں جوابدہی کی ضرورت ہے کہ ان کا رخ عوامی فلاح و بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کی طرف ہو۔
عوامی بیداری: ٹیکس لگانے کی اہمیت اور یہ قومی ترقی میں کس طرح حصہ ڈالتا ہے اس کے بارے میں عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرچہ حکومتی سطح پر موبائل بیلنس پر ود ہولڈنگ ٹیکس کو بڑھانے کے کے فیصلے کو ٹیکس اصلاحات کی جانب ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن عام آدمی اس فیصلے پر سیخ پا نظر آرہا ہے۔ حکومت کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اس پالیسی پر نظر ثانی کرے اور ٹیکس کے نفاذ میں منصفانہ اور تاثیر کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

Title Image by Mohamed Hassan from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

15مئی May تاریخ کے آئینے میں

بدھ مئی 15 , 2024
فن لینڈ کی خانہ جنگی اس وقت ختم ہوئی جب سفید فاموں نے روسی فوجیوں سے کیریلین استھمس پر ایک روسی ساحلی توپ خانے کے اڈے
15مئی …تاریخ کے آئینے میں

مزید دلچسپ تحریریں