سلطان محمود چشتی کی کتاب "ادبی کہکشائیں”
سلطان محمود چشتی کی کتاب "سبیل بخشش”پر اہل فکر و فن جن میں علماء، مشائخ کرام، شعراء، ادیب، وکلاء، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے باذوق شخصیات کے تبصرے اور مبصرین کے تعارف کو "ادبی کہکشائیں” کے نام سے کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے یہ کتاب "ادبی کہکشائیں” تعریفی اور تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ہے جس کا فلیپ پیر مہر حماد الدین سعدی جیلانی گولڑہ شریف اور نعت کا معتبر نام ممتاز شاعر و ادیب سید صبیح رحمانی صاحب کراچی والوں نے لکھا ہے کتاب پر انڈیا سے ڈاکٹر منصور فریدی صاحب کا مضمون اور مقدمہ ڈاکٹر مشرف حسین انجم بانی و چئیرمین نعت کونسل پاکستان نے تحریر کیا تھا جب کہ دیباچہ پروفیسر سید شبیر حسین شاہ زاہد صاحب ننکانہ صاحب کا تحریر کردہ ہے یہ کتاب کل 176صفحات پر مشتمل ہے جس میں تبصروں کے ساتھ ساتھ ادیبوں کا بھی مختصر تعارف بھی شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں دئیے گئے تعارف کے متعلق مؤلف کچھ یوں رقم طراز ہیں "ادبی کہکشائیں درحقیقت سبیلِ بخشش کی ادبی کہکشائیں ہیں جس میں ملکی و غیر ملکی صاحبان فکروفن کے نعت کے متعلق مدلل مضامین شامل ہیں جن سے اہل فکر وفن ضرور مستفیض ہوں گے۔ زیر۔نظر کتاب میں تبصرہ نگاروں کے مضامین کے ساتھ ان کے مختصر تعارف کو پیش کرنے کا خیال اس وقت پیش آیا جب راقم کو چند ماہ قبل علاقہ کی چند مذہبی اور صاحب۔دیوان شخصیات کے حالات۔زندگی تلاش کرنا پڑے،کافی دوڑ دھوپ کے بعد ان میں سے اکثر کے حالات اور تصانیف کا کوئی سراغ نہ مل سکا ،لہذا اسی بات کو مد۔نظر رکھتے ہوئے زیر نظر کتاب پر دئیے گئے تبصرہ نگاروں کے مضامین کے بعد ان کے مختصر کوائف کتاب میں شامل کرنا ضروری سمجھا کہ آنے والے قاری کو کم ازکم ان اہل قلم شخصیات کے متعلق باآسانی آگہی مل سکے جو مسائل ہمیں درپیش ہیں آنے والوں کے لیے آسان ہوں،لہذا اس کتاب کی شکل میں ان کی زندگیوں کے اہم ترین گوشوں کو زندہ رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی ہے (ص،15)
"ادبی کہکشائیں” اردو تبصروں پر مشتمل ایک بہترین کتاب ہے جو دانشوروں، نقادوں، شاعروں، ادیبوں، وکلاء، صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی متنوع صفوں سے تبصروں اور ان کے تعارفی مضامین کو اکٹھا کرتی ہے۔ کتاب کا عنوان "ادبی کہکشائیں” ایک بہترین عنوان ہے جس پر پیر مہر حمادالدین سعدی گیلانی، معروف شاعر اور ادیب سید صبیح رحمانی اور ہندوستان سے ڈاکٹر منصور فریدی جیسی نمایاں شخصیات کے تعاون کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مشرف حسین انجم بانی کے تعارفی نوٹ بھی شامل ہیں۔ اور پروفیسر سید شبیر حسین شاہ زاہد، ادبی مناظر کی ایک جامع تحقیق پیش کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انڈیا کے صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والے علامہ ڈاکٹر منصور فریدی سلطان محمود چشتی کی نعتیہ شاعری کے متعلق لکھتے ہیں "محترم سلطان محمود چشتی کی فکر ،فنی لوازمات کے ساتھ ساتھ آسان الفاظ سے مزین تراکیب کی پیچیدگی سے مبرّا ہے۔ان کی گفتگو براہ راست عاشق سے ہے خرد مندوں سے کم،عاشق اپنے رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی بارگاہ ناز میں عقیدت کے نذرانے پیش کرنے کے لیے شوکتِ الفاظ اور ندرت خیال کی فکر نہیں بلکہ دلی کیفیات سے لبریز نم آنکھوں کی حرارت سے بات کرتا ہے اور وہ ساری کیفیات”سبیلِ بخشش "میں موجود ہیں۔
176 صفحات پر محیط یہ کتاب تناظر اور تجربات کی ایک بھرپور سیریز کو سمیٹتی ہے، جس سے قارئین کو ادبی تبصروں کی باریک بینی سے آگاہی ملتی ہے۔ ڈاکٹر منصور فریدی کا مضمون، ڈاکٹر مشرف حسین انجم بانی کے دیباچے کے ساتھ مل کر کتاب کے بارے میں تبصروں پر مشتمل ایک بہترین کتاب ہے، جو ادب اور ادیبوں کے بارے میں علمی بصیرت پیش کرتا ہے۔ دریں اثنا، پروفیسر سید شبیر حسین شاہ زاہد کا تعارف ایک سیاق و سباق فراہم کرتا ہے، جو ادبی ماحول میں کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔زیرِ نظر کتاب میں دیگر ادیبوں کے ساتھ ساتھ راقم الحروف کا مضمون اور تعارف بھی شامل ہے۔ کتاب پرنٹ اور پی ڈی ایف دونوں ورژن میں منگوائی جاسکتی ہے۔
باریک بینی اور بصیرت افروز تبصروں کے ذریعے سلطان محمود چشتی کی "ادبی کہکشائیں” روایتی حدود سے آگے کی بہترین کتاب ہے، جو ادبی تبصروں کی تشکیل میں ادب کی پائیدار مطابقت کے ثبوت کے طور پر کام کرتی ہے۔ڈاکٹر منصور فریدی مزید ان کی تقدیسی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں
"وارفتگی فکر، شوق نمو، ذوق جنوں، لہجے کی کھنک، اسلوب نگارش میں انوکھا پن، قوت بیان، قادر الکلامی، بندش الفاظ، موسیقیت سے لبریز ، غنائیت سے متمول خاندانی شگفتگی اور شعری شیفتگی کا عنصر نمایاں ہیں۔ آپ کی شاعری کا جو حسن ہے وہ سلاست و فصاحت کے ساتھ حسن بیان ہے،مصرعوں کی برجستگی سے ان کی مشاقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے "۔(ص،24)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ "ادبی کہکشائیں” ادبی کھوج کی کثیر جہتی نوعیت کے ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے ہے، جو قارئین کو تخلیقی صلاحیتوں اور وجدان کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے ایک فکر انگیز سفر پر مدعو کرتا ہے۔ اس طرح یہ ادبی کہکشاوں میں ایک قابل قدر اضافہ ہے، یہ کتاب ادبی گفتگو اور تعمیری تنقید کو تقویت بخشتا ہے اور ادبی تجربے کو روشن کرنے کے لیے الفاظ کی طاقت کے لیے گہری تعریف کو فروغ دیتا ہے۔ میں مصنف کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔