گداگری Begging کا قومی مسئلہ
گداگری Begging کے موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ چند دن پہلے ایک معاصر روزنامہ کے ایڈیٹوریل صفحہ پر "گداگری Beggingمنفعت بخش کاروبار بن گیا” کے عنوان سے ایک کالم نظر سے گزرا۔ اگرچہ گداگری کے پیشہ سے وابستہ بھکاریوں کے مصدقہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں، تاہم اسی دوران بھکاریوں کے بارے ایک حیران کن اور افسوسناک سروے پڑھنے کا موقع ملا جس کے مطابق 24 کروڑ سے زیادہ آبادی والے پاکستان میں اس وقت 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری موجود ہیں جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں. بھیک مانگنا واقعی ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جب سوشل میڈیا پر اس موضوع کے بارے سرفنگ کی تو مزید چشم کشا معلومات سامنے آئیں۔ ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں ایک یوٹیوبر ایک بھکاری کا انٹرویو کر رہا تھا۔ انٹرویو کرنے والے نے ایک نئی نویلی ہنڈا سوک کار پر کیمرہ گھمایا جس کا دروازہ کھول کر ایک بھکاری باہر نکل رہا تھا۔ جب اس کا انٹرویو کیا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کی کار کی مالیت 25 لاکھ روپے ہے۔ اس گداگر نے بھیک مانگنے کا آغاز ایک بڑے شہر کے ٹریفک سگنل پر کھڑے ہو کر کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ 7 مرلے کی ایک تین منزلہ کوٹھی کا مالک ہے، اس کے تین رکشے ہیں جو کرائے پر چل رہے ہیں اور وہ پانچ پانچ مرلے کے 4 پلاٹوں کا مالک ہے۔ جب انٹرویو کرنے والے نے اس گداگر سے پوچھا کہ اسے بھیک مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی، اور وہ یہ کام چھوڑ کیوں نہیں دیتا ہے تو بھکاری نے بڑے اعتماد اور فخر کے ساتھ جواب دیا کہ: "میری جائیداد اور میرا پیسہ میری محنت کی کمائی ہے۔ سردی ہو، گرمی ہو یا بارش ہو میں سخت محنت کرتا ہوں۔ لگثری لائف گزارنا میرا حق بنتا ہے۔ ہمارے حکمران بھیک مانگنا چھوڑ دیں تو میں بھی یہ پیشہ ترک کر دوں گا۔”
حقیقت بھی یہی ہے کہ وطن عزیز میں گداگری Begging ایک قومی مسئلہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کا سفر اوپر سے نیچے کی طرف جاتا ہے۔ آپ لاہور کے جی آر او، کینٹ، گلبرگ اور ماڈل ٹاو’ن وغیرہ کے پوش علاقوں کو دیکھ لیں۔ ان میں رہنے والی "اشرافیہ” اور "امراء” حکومت سے اربوں روپیہ کے قرضے لے کر ہڑپ کر گئے ہونگے۔ اس کا براہ راست بوجھ قومی خزانے پر پڑتا ہے یعنی پاکستان کو وقفے وقفے سے عالمی مالیاتی اداروں، آئ ایم ایف (IMF) اور برادر ممالک کے سامنے قرضوں کے حصول کے لیئے "کشکول” پھیلانا پڑتا ہے جس کا بالواسطہ اعتراف سنہ 2018ء کی الیکشن مہم میں عمران خان نے یہ اعلان کر کے کیا کہ وہ حکومت میں آئے تو کشکول توڑ دیں گے اور سنہ 2024ء میں شہباز شریف نے اسی بات کو دہرا کر کیا کہ میاں محمد نواز شریف کو اقتدار دیا گیا تو وہ بھی کشکول کو توڑ دیں گے۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ آئی ایم ایف (IMF) سے مذاکرات کے دوران نہ صرف آئ ایم ایف (IMF) سے امریکہ کی سفارش کے زریعے قرضے کی بھیک مانگی گئی بلکہ اس کی تمام شرائط بھی مان لی گئیں۔ دراصل بھیک کچھ رقم لے کر واپس نہ کرنے کا شرمناک عمل ہے۔ پاکستان کا تقریبا ہر حکمران سنہ 1958ء کے بعد سے اس عمل کو تسلسل کے ساتھ بخوبی انجام دے رہا ہے۔ ہماری ہر حکومت ہر سال آئی ایم ایف (IMF) کو جو قسطیں واپس کرتی ہے وہ سابقہ قرضوں کے اصل زر کی مد میں نہیں آتی ہیں بلکہ وہ قسطیں ملک پر چڑھنے والے قرضوں کے سود کی ہوتی ہیں۔ اسی لیئے ہر سال ڈالر کے مہنگا ہو جانے اور مزید قرضے لینے کی وجہ سے قرضوں کی رقوم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ہمارے ملک میں خود انحصاری کی کوئی پائیدار سکیمیں موجود نہیں ہیں۔ ہم کب تک بھیک کے قرضہ جات لے کر ملک چلاتے رہیں گے؟ اقوام عالم کے سامنے بحیثیت قوم ہم اپنی عزت نفس تیزی سے کھوتے جا رہے ہیں۔ اس کا اثر نچلی سطح پر بھی پڑا ہے کہ اب گداگری Begging بھی باقاعدہ ایک منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ ملک میں پائے جانے والے بھکاریوں کا نیٹ ورک وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے جس کا 50 فیصد حصہ کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام آباد اور بقیہ دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے. کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950 روپے ہے. پورے ملک میں فی بھکاری اوسطا 850 روپے کماتا ہے. روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں. یہ رقم سالانہ 117 کھرب روپے ہیں جو ڈالر کی اوسط میں 42 ارب ڈالر بنتے ہیں! بھکاری حضرات عموما اخلاقی بلیک میلنگ کرتے ہیں جس سے بغیر کسی منافع بخش کام کے ہم بھکاریوں پر ترس کھا کر انکی مدد کرتے ہوئے سالانہ 42 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں. اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے جس سے ملکی ترقی کے لئے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کی افرادی قوت کسی کام کی نہیں رہتی. جبکہ انہی بھکاریوں کو حکومت کام پر لگائے تو معمولی سے معمولی کاموں سے بھی ملک کو 38 ارب ڈالر کی آمدنی میسر آ سکتی ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کر سکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے لئے باعزت روزگار بھی مہیا کر سکتی ہے.
لیکن مجال ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس بھیانک قومی مسئلہ کے بارے میں کبھی بھی سنجیدگی سے سوچا ہو۔ پاکستان میں سنہ 1970ء سے آج تک قرضے لے کر معاف کرانے والے سیاسی خاندانوں کی لسٹیں کبھی پبلک کی گئی ہیں اور نہ ہی کبھی ان کی جائیدادوں کو ضبط کیا گیا ہے۔ قرضے لے کر معاف کرانا "بھکاری پن” کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے، جس کی خود "اشرافیہ” مرتکب ہوتی آ رہی ہے۔ ایک معاصر صحافی نے ماضی قریب میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے تانبہ کے ذخائر سے 6000 ارب ڈالر کا تانبہ شمالی وزیرستان سے چین بھیجا گیا جبکہ پاکستان کا قرضہ صرف 200 ارب ڈالر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیسہ آخر کہاں گیا اور وہ کون "بھکاری” ہڑپ کر گئے؟ پورے انگلینڈ میں صرف 86 سرکاری گاڑیاں ہیں جبکہ صرف اسلام آباد میں 90 ہزار سرکاری گاڑیاں ہیں۔ صدر سے لے کر ایم پی اے اور ایم این اے کے منشیوں اور بیوروکریسی کے چپڑاسیوں تک آرام دہ سرکاری گاڑیوں میں مفت گھومتے ہیں۔ ان سب کی بجلی، گیس، ہزاروں لٹر کا فیول، سینکڑوں سیکورٹی گارڈز اور پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیاں، کچن کے نام پر کروڑوں روپے، اور باہر کے ملکوں میں دوروں کے دوران درجن بھر افراد ساتھ لے کر سیر سپاٹے کرنا اور قومی خزانے سے حج عمر کروانا کونسے ملک کا قانون ہے؟ ہفتہ بھر سے سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلی محترمہ مریم نواز شریف نے سرکاری زیر استعمال گاڑیوں کے ٹائروں کی شکل میں تقریبا 3 کروڑ اور ہیلی کاپٹر کی خریداری پر لگ بھگ 4 ارب روپے کی رقم خرچ کی ہے۔ اس نوع کے سرکاری اخراجات پورے سالانہ بجٹ کا 50 فیصد سے بھی زیادہ بنتے ہیں جس کا بلآخر بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے جسے ٹیکس لگا کر پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس طرز کی کرپشن نے ہی گداگری Beggingکی لعنت کی حوصلہ افزائی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے کہ نہ صرف یہ مفت خوری نما گداگری ملک بھر میں تیزی سے پھیلی ہے بلکہ اسے ملک سے باہر بھی پروموٹ کیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مافیہ سرگرم عمل ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں گداگروں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے جو شاپنگ سنٹرز، دکانوں، سڑکوں اور مسجدوں کے باہر بھیک مانگتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کی پی آئی کی فلائٹ سے سعودی عرب جانے والے گداگروں کو نیچے اتارا گیا تھا۔ اس سے پہلے سعودی حکومت نے بھی کچھ پاکستانی بھکاریوں کو پکڑ کر ڈیپورٹ کیا تھا۔ اب یہ بھی اطلاع ہے کہ سعودی عرب نے پاکستانیوں کے ویزوں پر پابندی لگا دی ہے۔ میں نے دبئی میں بھی کثیر تعداد میں جوان خواتین کو بھیک مانگتے دیکھا ہے جن میں کچھ معصوم بچوں کو اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں۔ بعض خوبصورت اور جوان لڑکیاں بھی اس دھندے میں ملوث ہیں جو مختلف فلیٹوں اور ویلوں وغیرہ میں گھر کے دروازے پر بیل دے کر بھیک مانگتی ہیں۔ ان لڑکیوں کو لانے والے گروہ ایک ایک بھکاری لڑکی سے دو سو سے تین سو درہم تک ایک دن کا لیتے ہیں۔ یہ لڑکیاں اس سے اوپر جو کماتی ہیں وہ ان کا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھکاری "دلال” سے تنخواہ اس کے علاوہ لیتی ہیں۔ ان کو لانے والے یہ بدقماش لوگ ان کے ویزہ، ٹکٹ اور رہائش کا انتظام کرتے ہیں اور بعد میں ان سے ہزاروں درہم ماہانہ کماتے ہیں۔ پاکستان میں بھکاری خواتین، بچے، مرد اور بوڑھے بھی گھروں کے دروازوں پر جا کر بھیک مانگتے ہیں۔ ان بھکاریوں کی اکثریت شہروں اور دیہاتوں میں موٹے کپڑے کے ٹینٹوں میں رہتی ہے جنہیں پنجابی میں "پکھی واس” یا "اوڈ” کہتے ہیں۔ ان میں اکثر گداگر گھروں کی ریکی کرتے ہیں اور بعد میں انہی خیرات دینے والے گھروں میں چوریاں اور ڈکیتیاں بھی کرتے ہیں۔
خاص طور بیرون ملک میں ان بھکاریوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے وزٹ اور ایمپلائمنٹ ویزوں پر پابندی بھی لگائی گئی ہے جس میں متحدہ عرب امارات سرفہرست ہے۔ پاکستان کے کم و بیش 30 اضلاع کے باشندوں کا داخلہ متحدہ عرب امارات میں بند کیا جا چکا ہے۔ یہاں پاکستان کے لیبر کے ویزوں پر 6 ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا پہلے ہی اس وجہ سے پابندی لگی ہوئی یے۔ گداگری کے اس مکروہ پیشہ کی وجہ سے خلیجی ممالک میں پاکستان بری طرح بدنام ہو رہا ہے۔ اس سے قبل ان ممالک میں پاکستانی ورکروں کی بہت عزت اور ڈیمانڈ تھی۔ اب آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ یہاں ہم اچھے بھلے خارجی پاکستانیوں کے بارے میں بھی یہ ریمارکس دیئے جانے لگے ہیں کہ کل’ پاکستانی کچرا۔ پاکستان میں گداگری کے خلاف قانون بھی موجود ہے مگر کبھی اس پر عمل کیا گیا ہے اور نہ ہی معصوم و رحم دل پاکستانی قوم ان بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ہماری اجتماعی عزت ہے کہ ایسے بھکاریوں کی وجہ سے جس کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے الفاظ یاد آتے ہیں:
"غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں، پہناتی ہے درویش کو تاج سرِ دارا۔” جس کو پہننے کا تاحال دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
حکومت کے علاوہ گداگری کے ناسور سے چھٹکارے کے لیئے کچھ ذمہ داریاں عوام پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ ہم مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دیکر مطمئن ہیں تو یہ پکی بات ہے اگلے سو سال مزید ہمیں ذلت کی زندگی گزارنا ہو گی۔ اگر ہم چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کے لئے خوشحال اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں تو آج ہی سے ہمیں ایسے تمام بھکاریوں کو بھیک دینا بند کرنا ہو گی، چاہے یہ بھکاری عوام سے ہوں یا یہ سرکاری بھکاری ہوں۔
بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا، اسکے صرف چار سال بعد اسکے پاس 52 ارب ڈالر کے ذخائر تھے. کیا ہم ایسے مثالی اور مستند کام کی تقلید نہیں کر سکتے ہیں؟ بہتر ہے ہم کشکول اٹھا کر دربدر ایک ایک ارب ڈالر کی صدا لگانے کی بجائے اس بھکاری پن سے ہی جان چھڑا لیں۔
Title Image by Myriams-Fotos from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔