گم نام شاعر مشہور شعر
کچھ اشعار اس قدر معروف ہو جاتے ہیں کہ ہر خاص و عام کو ازبر ہوتے ہیں۔ ہر چند کہ کثرتِ استعمال سے ان اشعار میں تحریف کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ ناموزوں کر کے پڑھنا بھی کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے زبان زدِ عام اشعار کی مقبولیت اس قدر ہونے کے باوجود ان کے تخلیق کاروں سے شاذ شاذ ہی کوئی شناسا ہوتا ہے۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ شعر کو اس کے خالق کے نام سے پڑھا اور لکھا جائے۔ لکھنے والوں کے پاس اس کے سوا نیک نامی کے لیے اور ہوتا بھی کیا ہے۔ اب ہر شاعر میر، غالب یا اقبال ایسا خوش قسمت تو ہونے سے رہا کہ جس کے بیسیوں اشعار خواص اور عوام کو ازبر ہوں۔ کئی ایسے شعرا گزرے ہیں جن کا ایک شعر یا ایک مصرع ہی ضرب المثل بنا۔ کئی محققین نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے ایسے شاعروں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے قارئین تک پہنچایا۔ اس تناظر میں محمد شمس الحق صاحب نے” ضرب المثل اشعار” کی صورت میں نمایاں کام کیا تاہم یہاں بھی تمامی ایسے اشعار جو مقبولِ خاص و عام ہیں کو یک جا نہ کر پائے۔ ڈاکٹر آصف راز صاحب نے ” لاوارث مصرعے” کی صورت ایک کتاب ترتیب دی جو ایسے اشعار کے کھوج میں رہنمائی فراہم کرتی ہے لیکن اس میں بھی تشنگی کا عنصر واضح طور پر ملتا ہے۔ابو سہیل عقیل صاحب نے "انتخاب” نام سے ایک کتاب مرتب کی جو جا بہ جا اغلاط سے بھری پڑی ہے۔ اسی طرح سید معراجی جامی صاحب اور غضنفر علی خان صاحب کی مشترکہ کاوش” اردو کے مشہور اشعار” بھی میرے جیسے قارئین کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے۔ خلیق الزماں نصرت صاحب کی کتاب” برمحل اشعار اور ان کے مآخذ” بھی بہت محنت اور تحقیق سے مرتب کی گئی کتاب ہے۔ غرضے کہ بے شمار محقیقین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق ایسے اشعار کی کھوج لگائی ہے جن کے خالق تک عام آدمی نہیں پہنچ سکتا۔ناصر زیدی مرحوم نے ایسے اشعار کے حوالے سے بہت وقیع کام کیا ہے جو کتابی صورت میں تو نہیں البتہ ان کے اخباری کالمز میں موجود ہے۔ابھی تک کئی ایسے اشعار موجود ہیں جن کے شعرا کی تلاش جاری ہے۔ جیسا کہ یہ شعر:
رفیقوں سے رقیب اچھے جو جل کر نام لیتے ہیں
گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں
یہ شعر اس قدر مشہور ہے کہ جگہ جگہ بہ طور حوالہ لکھا جاتا ہے لیکن اس کے شاعر کون ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم صاحب نے چند دن قبل مجھ سے اس کے خالق کی بابت استفسار کیا تو میں نے بہت کوشش کی مگر تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس کے خالق تک نہ پہنچ پایا۔
اردو کے معروف شعروں میں ایک شعر جو میں نے کئی جگہوں پر مختلف حالتوں میں لکھا تھا۔
خدا کو بھول گئے فکر روزی میں کیا کیا لوگ
خیالِ رزق ہے رازق کا کچھ خیال نہیں
یا
خدا کو بھول گئے روزی کی فکر میں لوگ صوفی
خیالِ رزق رہا رازق کا کچھ خیال نہ رہا
اور اسی طرح کسی نے کس طرح اور کسی نے کس طرح اس مفہوم کو اپنی دکان، ہوٹل یا گاڑی پر لکھوا دیا۔ شعر کی صورت میں ناقابلِ برداشت تحریف کر دی گئی۔ اس شعر کی درست صورت خلیق الزماں نصرت صاحب نے اپنی کتاب میں لکھ دی البتہ اس کے خالق کے بارے میں فقط تخلص "خلیل” لکھا۔ میں نے خلیل کے بارے جاننے کی کوشش کی تو کئی خلیل سامنے آئے جیسے خلیل رام پوری،ابراہیم خلیل،خلیل احمد،خلیل الرحمان اعظمی، خلیل اللہ فاروقی، شرف الدولہ خلیل وغیرہ۔ خلیل نامی ان شعرا کے ہاں تو یہ شعر نہ ملا ۔آخر کار لالہ سری رام کی کتاب میں اس سوال کا جواب ملا کہ یہ خلیل کون ہیں؟ لالہ سری رام لکھتے ہیں:
"سخنور خوش فکرمیر دوست علی خلیل مرحوم خلف سید جمال علی باشندہ قصبہ بڈولی اودھ خواجہ حیدر علی آتش لکھنوی کے شاگردوں میں نامور تھے ان کی خوش کلامی کا بڑا شہرہ تھا۔نواب نادر میرزا نیشاپوری کی مصاحبت میں بسر اوقات کرتے تھے۔”
لالہ سری رام،خمخانہ جاوید جلد سوم، دلی پرنٹنگ ورکس،دہلی،1917ء، ص43
اب آتے ہیں اس شعر کی صحت کی طرف اس شعر کی درست صورت خلیق الزماں نصرت صاحب نے بھی لکھ دی، خمخانہ جاوید میں بھی موجود ہے اور میر دوست علی خلیل کے دیوان گلزار خلیل میں بھی موجود ہے۔
خدا کو بھول گئے لوگ فکرِ روزی میں
خیالِ رزق ہے رزاق کا خیال نہیں
لالہ سری رام کے مطابق خلیل کا بیشتر کلام ضائع بھی ہو گیا۔تاہم ان کا دیوان فروری 1889ء میں مطبع نامی لکھنؤ میں چھپا۔ خلیل کے کلام میں مقصدیت کا عنصر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک درویشی اور خودداری کا رنگ بھی ملتا ہے۔
یہ شعر دیکھیں:
تم سنو یا نہ سنو نالے کیے جاؤں گا
دردِ دل کہنے سے مطلب ہے اثر ہو کہ نہ ہو
اسی طرح آتش کے رنگ میں رنگا ہوا یہ شعر ملاحظہ ہو:
عشاق کو محفل سے اٹھاؤ نہ حسینو
آئے ہیں ہوا کھانے کو بیمار چمن میں
خلیل کے کلام میں معرفت اورا خلاق کا رنگ بھی غالب ہے۔صنعتوں کے استعمال میں بھی خلیل قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ لفظیات بھی ان کے کلام میں خاص خوبی ہے۔خود غرضی جیسی بیماری کا حامل یہ شعر دیکھیں:
اہلِ دنیا ہیں تمام اپنی غرض کے بندے
پڑ گئی جب کوئی مشکل تو خدا یاد آیا
غرض خلیل کے دیوان سے انتخاب کیا جائے تو مختلف موضوعات پر بیشتر عمدہ اشعار برآمد ہو سکتے ہیں ۔ ان کے دیگر کلام کی بہ جائے مذکورہ شعر مشہور ہو گیا۔ قارئین کے ذوق کے لیے اس غزل کے مزید چند اشعار پیش خدمت ہیں:
ہو دل میں داغ غمِ یار خوش جمال نہیں
مثال خانۂ تقویم گہر ہے مال نہیں
ہمارے قتل سے قاتل کو انفعال نہیں
کوئی مرے ملک الموت کو خیال نہیں
کہوں میں کیا کہ گناہ گار بال بال ہوں میں
گناہ جتنے ہیں اوتنے بدن پہ بال نہیں
شرابِ پاک پلا دے تو ساقئ کوثر
حرام زادے کے اوپر کبھی حلال نہیں
جو بوسہ مانگتا ہوں میں تو کہتے ہیں یہ حسیں
سخی سے بھی ہو جو پورا یہ وہ سوال نہیں
ہوا فساد اوڑو بلبلو خزاں آئی
چمن کی آب وہوا میں اب اعتدال نہیں
خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیالِ رزق ہے رزاق کا خیال نہیں
ہمارا حال تو بے خوف کہیو اے قاصد
نہ ڈریو ایلچی کے واسطے زوال نہیں
گلزار خلیل، مطبع نامی،لکھنو،فروری 1889ء،ص93
سترہ اشعار پر مشتمل اس غزل سے چند اشعار بہ طور نمونہ پیش کیے ہیں۔ ہر چند ان اشعار میں وہ معنویت یا جاذبیت نظر نہیں آتی جو لکھنو کے ایک عظیم شاعر آتش کے شاگرد کے کلام میں ہونی چاہیے۔
مضمون نگار فرہاد احمد فگار کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد سے ہے۔اردو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ بہ طور کالم نگار، محقق اور شاعر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ لسانیات آپ کا خاص میدان ہے۔ آزاد کشمیر کے شعبہ تعلیم میں بہ طور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کالج میگزین بساط کے ایڈیٹر ہیں اور ایک نجی اسکول کے مجلے کاوش کے اعزازی مدیر بھی ہیں۔ اپنی ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں کئی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تحریر سادہ بامعنی ہوتی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔