دنیا کی درسگاہوں کی رینکنگ اور مسلم دنیا کا علمی زوال
دنیا پر آج تک جتنی بھی قوموں نے حکومت کی ہے وہ اپنے وقت کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قومیں تھیں۔ آج مسلم دنیا کے زوال کی ایک بنیادی وجہ اس کے تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی ہے جس سے مستقبل کے لیئے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان نسل تیار نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا کے ذہین و فطین طلباء کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیئے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کنیڈا اور دیگر مغربی ممالک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طلباء اپنے ممالک میں اعلی تعلیم کا ریوارڈ نہ ملنے کی وجہ سے انہی ممالک میں روزگار تلاش کر لیتے ہیں یا پھر بعض طلباء تو ان ممالک کی مستقل شہریت بھی لے لیتے ہیں۔
ان ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت پاکستان جیسے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے اعلی دماغ رکھنے والے طالب علموں کو سکالرشپ بھی دیتی ہے۔ لھذا غریب اور متوسط طبقے کے طالب علم عموما ان وظائف سے بھرپور فائدہ اٹھا کر باہر چلے جاتے ہیں۔ چونکہ ان امیر ملکوں میں معاوضہ بھی زیادہ ملتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک سے بہت سے طالب علم وہاں کی مستقل شہریت لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر مستزاد ہمارے ہاں عالمی پائے کے معیار کی تعلیمی درسگاہیں بھی نہیں ہیں۔ حال ہی میں دُنیا کی 100بہترین یونیورسٹیوں کی نئی فہرست جاری کی گئی ہے، جس میں افسوسناک حد تک پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا نام شامل نہیں ہے۔
اس فہرست کے مطابق امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی رواں برس بھی پہلے نمبر پر موجود ہے۔ امریکہ ہی کی ییل Yale یونیورسٹی دوسری سے تیسری پوزیشن پر آ گئی ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی اس مرتبہ بھی ہاورڈ یونیورسٹی کے برابر ایک نمبر پر ہے۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی تیسرے سے دوسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے۔
اس سال کی فہرست میں چوتھی پوزیشن یونیورسٹی کالج لندن کو ملی ہے، جو گزشتہ برس ساتویں نمبر پر تھی۔ پانچویں پوزیشن امپیریئل کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کو مشترکہ طور پر دی گئی ہے۔ گزشتہ برس آکسفورڈ چوتھے اور امپیرئیل کالج چھٹے نمبر پر تھا۔
اس سال چھٹے نمبر پر یونیورسٹی آف شکاگو، ساتویں پر پرنسٹن یونیورسٹی، آٹھویں پر ایم آئی ٹی، نویں پر کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور دسویں نمبر پر نیو یارک میں قائم کولمبیا یونیورسٹی شامل ہے۔ ایک سو بہترین بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی اس فہرست میں سے بیشتر امریکی اور برطانوی یونیورسٹیاں ہیں۔ تاہم تازہ فہرست میں امریکی یونیورسٹیوں کی تعداد گزشتہ برس کے 37 کے مقابلے میں کم ہو کر 32 ہو گئی ہے۔ برطانیہ کے 17 تعلیمی ادارے اس فہرست میں شامل ہیں جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد 18 تھی۔
اس فہرست میں آسٹریلیا تیسرے نمبر پر ہے، جس کے 8 تعلیمی ادارے اس فہرست میں شامل ہیں۔ جبکہ گزشتہ برس اس کی سات یونیورسٹیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔ رواں برس آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی اس فہرست میں 17ویں نمبر پر ہے۔
برطانیہ کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کے 21 تعلیمی ادارے اس فہرست میں شامل ہیں، جن میں سرفہرست سوئٹزرلینڈ کا ETH زیورخ ہے۔ اسے یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ساتھ مشترکہ طور پر 20ویں پوزیشن دی گئی ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن کی فری یونیورسٹی چوراسویں پوزیشن پر ہے۔
اس فہرست میں ایشیائی یونیورسٹیوں کی تعداد 16ہے، جو گزشتہ برس 14تھی۔ ان ایشیائی یونیورسٹیوں میں پاکستان کا نام کسی نمبر پر موجود نہیں ہے۔ رواں برس جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو 22ویں نمبر پر ہے جبکہ یونیورسٹی آف ہانگ کانگ 24 ویں نمبر پر براجمان ہے۔
دوسری جانب براعظم ایشیا کی سو اعلیٰ جامعات کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے، جن میں ہانگ کانگ یونیورسٹی سرفہرست ہے۔ ہانگ کانگ ہی میں قائم چائنا یونیورسٹی کو دوسری پوزیشن دی گئی ہے۔جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی مشہور یونیورسٹی عالمی سطح پر بائیسویں پوزیشن پر ہے جبکہ ایشیاء میں اُس کی رینکنگ تیسری ہے۔ افسوس ہے کہ اس فہرست میں بھی پاکستان کا نام نہیں ہے۔ دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی اور بیجنگ یونیورسٹی بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت کا بھی کوئی تعلیمی ادارہ اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔
یونیورسٹیوں کی یہ عالمی ریکنگ تعلیمی اداروں کے سروے کے ذریعے ترتیب دی جاتی ہے۔ اس سروے میں دُنیا بھر سے منتخب ماہرین تعلیم حصہ لیتے ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں میں تحقیقی سہولتوں، تعلیمی معیار اور بیرون ممالک سے طلباء اور اساتذہ کو بھرتی کرنے کی اہلیت کے نتاظر میں جائزہ پیش کرتے ہیں۔ یہ فہرست لندن کا ‘ٹائمز ہائیر ایجوکیشن سپلیمنٹ’ ترتیب دیتا ہے۔
جدید دور علمی عروج اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اور یہ یونیورسٹیاں ہی ہیں جو اعلی تعلیم دے کر طلباء کو بہتر مستقبل کے لیئے تیار کرتی ہیں۔ لاہور کی ‘پنجاب یونیورسٹی’ کا عرب ممالک اور دنیا بھر میں ایک نام ہے۔ اسی طرح ‘شارجہ یونیورسٹی’ رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے مگر دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں ان دونوں کا نام شامل نہیں ہے! جب تک مسلمان قوم بہترین درسگاہیں تیار نہیں کرتی اور اپنی آئندہ نسلوں میں حصول علم اور سائنس و ٹیکنالوجی کا شوق پیدا نہیں کرتی اسے دوبارہ عروج حاصل نہیں ہو گا۔ اسلامی دنیا میں دولت اور وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ دراصل، مسلمانوں کے زوال کی بنیادی وجہ ان کا علمی زوال ہے۔
Title Image by Olya Adamovich from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔