متبادل نظام حکومت
آٹھ فروری 2024ء کے اس الیکشن کے بعد سب کچھ ٹھیک نہیں ہونے جا رہا۔ انتخابات سے پہلے ہی یہ وسوسے زور پکڑ رہے ہیں کہ ایک تو اس الیکشن پر خون خرابے اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور دوسرا یہ انتخابات پر امن اور منصفانہ بھی ہو گئے تو اس کے نتائج کو قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ ملک کی سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی کو فیئر پلینگ گراونڈ فراہم نہیں کی جا رہی۔ اس پر مستزاد اب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان اور سرکردہ رہنما شاہ محمود قریشی کو الیکشن کے عین قریب سائفر کیس میں دس دس سال کی قید بھی سنا دی گئی ہے۔
ان انتخابات سے قبل ایک یہ سوال بھی ڈسکس کیا جاتا رہا ہے کہ چونکہ نون لیگ کو جتوانے اور میاں محمد نواز شریف کو اقتدار دینے کے واضح اشارے آئے ہیں لھذا ملک میں پہلے کی طرح انتخابی گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ضرور کچھ ملک گیر جلسے کیئے ہیں لیکن مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم الیکٹیلبلز پر انحصار کر رہی ہے اور ڈرائینگ روم کی سیاست سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے ن لیگ کا پلڑا بھاری کرنے کے لیئے تحریک انصاف پر پابندیاں لگائی گئیں، اس کے امیدواروں کو حراساں کیا جاتا رہا اور ان کی اکثریت کے کاغذات نامزدگی کو بھی مسترد کیا گیا۔
جہاں تک انتخابات میں دھاندلی یا رگنگ کا تعلق ہے وہ نہ بھی ہوئی تو بناء بریں ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت پی ٹی آئی سے ہمدردیاں رکھنے والے ووٹران میں تشویش پائی جاتی ہے کہ مقتدرہ الیکشن کو منصفانہ اور غیرجانبدارانہ بنیادوں پر کروانے میں مخلص نہیں ہے جس وجہ سے قومی سیاست میں اس صورتحال نے ملک میں مایوسی کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے اور خاص و عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ان کے ووٹ ڈالنے سے انتخابی نتائج پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اوپر سے ہماری عوام سیاسی و جمہوری تربیت سے ہمیشہ محروم رہی ہے جس کی وجہ سے انتخابات میں کبھی بھی عوام اپنے امیدواروں کا انتخاب میرٹ پر نہیں کر سکی ہے۔ گزشتہ تمام انتخابات میں عوام ہمیشہ مفاداتی، گروہی اور تعلق داری کی بنیادوں پر ووٹ دیتی آئی ہے اور ووٹوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی رہی ہے۔ جب ایک طرف معیاری جمہوری اصول مفقود ہوں اور دوسری طرف اکثریتی مقبول جماعت کو حق انتخابات سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو ایسی صورتحال میں انتخابات کا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی ملک کے سیاسی اور معاشی حالات میں یکسر تبدیلی لانے اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا کوئی کیمیائی فارمولہ نہیں ہے۔ جمہوریت نظام حکومت کو کارکردگی کی بنیاد پر بہتر بنانے کا بتدریج عمل ہے، اس میں راتوں رات کوئی بڑی جادوئی تبدیلی نہیں آتی مگر اس الیکشن میں اس عمل کو سست ہی نہیں بنایا گیا بلکہ اسے پیچھے کی طرف بھی دھکا دیا گیا ہے۔ عام لوگوں کے دل و دماغ پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ جو وابستگی کا جذبہ تھا اب اس کے نفرت اور انتقام میں بدلنے کے زیادہ آثار پیدا ہو گئے ہیں کہ پہلے امیدوار اپنی تقریروں اور بیانات میں تبدیلی اور ترقی کی جو امیدیں بندھاتے تھے عوام کا ان سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے۔
الیکشن مہم کی نوعیت تو ہوتی ہی ایسی ہے کہ ہر جماعت عوام سے یہ وعدہ کرتی ہے کہ اس کے برسر اقتدار آنے کی دیر ہے، عوام کے سارے دکھ اور مسائل دور ہو جائیں گے مگر وقفے وقفے سے ہر الیکشن کے بعد مسائل کم نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ بڑھے ہی ہیں۔
کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے الیکشن منشور میں یہ ایجنڈا شامل تک نہیں ہے کہ ملکی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کیا ہے، مالی وسائل میں شدید کمی ہوئی ہے اور پہلے سے ناقص انفرا اسٹرکچر بد سے بدتر ہوا ہے تو اس کے حل کے لیئے کیا مستقل پالیسیاں بنائی جانی چایئے۔ نون لیگ ہو، پیپلزپارٹی ہو یا کوئی سیاسی اتحاد ہو وہ کتنی ہی بڑی اکثریت سے کامیاب ہو کر اقتدار سنبھا لیں اور انہیں کتنی ہی مقبولیت حاصل ہو جائے، وہ ان مسائل کو اپنے دور حکومت میں حل نہیں کر سکتے ہیں تو اس الیکشن کی اہمیت بھی ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس نوع کے غیر معیاری اور غیر مخلصانہ الیکشن بار بار کروا کر وطن عزیز کا وقت اور پیسہ آخر کب تک برباد کیا جاتا رہے گا۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ جمہوری انداز سیاست کو بدلا جائے یا پھر مقامی و سیاسی نفسیات کو مدنظر رکھ کر جمہوریت کا کوئی متبادل نظام حکومت تیار کیا جائے۔ ملک کی معیشت کا اتنا زیادہ بیڑا غرق ہو چکا ہے کہ اب ملک غیر مستحکم سیاسی صورتحال کا مزید بوجھ اٹھانے کا متحمل ہی نہیں رہا۔ الیکشن بے شک ہو جائے یا اب بھی ملتوی کر دیا جائے مگر ان فوری مسائل کا مستقل حل تلاش کیا جانا از حد ضروری ہو چکا ہے:
کوئی صورت نظر نہیں آتی،
کوئی امید بر نہیں آتی۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی،
کچھ ہماری خبر نہیں آتی.
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔