سیاست کے فرعون
ہر نئی آنے والی حکومت میں افراط زر اور مہنگائی وغیرہ میں تیزی سے اضافہ ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں وہ معاشی حالات میں پیدا ہونے والے بدتری کے سیلاب کو نہیں روک سکی ہیں۔ آپ ڈالر اور روزمرہ کی قیمتوں کا ہر گزشتہ دور سے موازنہ کر کے دیکھ لیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ آج سے پانچ سال پہلے مہنگائی کم تھی، دس سال پہلے اس سے بھی کم تھی اور پندرہ سے بیس
سال پہلے تو آج سے کئی گنا کم تھی۔ دنیا کے ہر ملک میں معاشی بحران کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے مگر سمجھدار اور پائیدار پالیسیوں پر عمل کرنے والے ممالک میں فی کس آمدن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی تو ہوتی ہے مگر یہاں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
جنرل ایوب خان اور پرویز مشرف کے ادوار میں مارشل لاء اور آمریت تھی مگر اس وقت ملک میں پھر بھی زیادہ خوشحالی تھی۔ ملک کے ترقی کرنے کا انحصار سیاسی استحکام، کردار اور امن و امان کی صورتحال پر ہوتا ہے۔ معاشی عدم استحکام ملک و ملت کے بگاڑ کا سبب تو بن سکتا ہے مگر یہ اس کے ٹھیک ہونے کا معیار نہیں ہو سکتا۔ ہماری معیشت اور سیاسی صورتحال میں تسلسل سے بگاڑ پیدا ہوتا رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی استحکام چونکہ ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں لھذا جب تک ملک میں سیاسی کشمکش قائم رہے گی ملک میں معاشی ترقی کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہو سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئی حکومت سیاسی کھینچا تانی ہی کے دوران کرسی پر بیٹھتی ہے جس وجہ سے اسے مستقل معاشی پالیسیوں پر عمل کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے جس وجہ سے ہمیں ملک کو چلانے کے لیئے ہر سال ایک ایک ملئین کے لیئے دوست ممالک سے قرض کی بھیک مانگنا پڑتی ہے اور ساتھ ہی ہم پر ہر سال بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک تو ہماری بحیثیت مجموعی عزت نفس مجروح ہوتی ہے دوسرا ملک میں مہنگائی اور افراط زر میں بے ہنگام اضافہ ہو جاتا ہے، افلاس کا تناسب بڑھ جاتا ہے اور لوگ گھروں کا چولہا جلانے کی خاطر جرائم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان لاء اینڈ آرڈر اور کرپشن کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کے منہ سے ان مسائل کی وجوہات کا تعین کرنے کا آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا۔ حالانکہ مسائل کی بحث کرنے کی بجائے مسائل کے حل کو ڈسکس کرنا کہیں زیادہ اہم ہے۔
ہماری غریب عوام اس سیاسی اور معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمرانوں کے بچے پیدا ہوتے ہی ارب پتی کیسے بن جاتے ہیں اور ان کے بچوں پر ہر سال آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھ جاتا ہے؟ یوں دیکھا جائے تو ہمارے ملک نے ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی ہے۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے الٹی چال چلی ہے اور ہم دوسرے ملکوں کی طرح عروج حاصل کرنے کی بجائے زوال کا شکار ہوئے ہیں۔ غور سے دیکھیں تو ہمیں ماضی میں اپنے نظام کو بدلنا چایئے تھا مگر ہم صرف چہرے بدلتے رہے ہیں۔ اس پر دو طرفہ المیہ یہ ہے کہ ہم نے صحیح طریقے سے چہرے بھی نہیں بدلے ہیں اور آج تک ہم پر چند جاگیردار اور سرمایہ دار خاندانوں ہی کا ایک مخصوص طبقہ مسلط رہا ہے۔
ہمارے ایک ایف سی کالج، لاہور کے ایک سال سینئر کلاس فیلو وکیل انجم نے 80 کی دہائی میں "سیاست کے فرعون” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے پنجاب کے ان جاگیرداروں کے عروج و زوال کی کہانی لکھی تھی جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں مسلم حریت پسند مجاہدین کے خون سے ہاتھ رنگے اور قومی تحریکوں میں ملت اسلامیہ سے غداری کی جس کے بدلے میں انگریز حکمرانوں نے انہیں جاگیروں، خطابات اور انعامات سے نوازا۔ لیکن حیرت ہے کہ ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو زوال ابھی تک نہیں آیا جیسا کہ اس کتاب میں کہا گیا تھا۔ آج بھی چہرے بدل بدل کر ملک پر انہی چند جاگیردار اور سرمایہ دار خاندانوں کی حکومت چل رہی ہے۔ سیاست کے یہ "فرعون” اب "لاڈلے” کہلاتے ہیں جو ہر نئی آنے والی حکومت میں قلابازیاں کھاتے ہیں اور ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں مگر رہتے ہمیشہ اقتدار میں ہیں۔ یہ پسند اور ناپسند کی جنگ ہے جس میں جیت اسی کی ہوتی ہے جو من پسند ٹھہرتا ہے جس میں ہار ہر دفعہ عوام کی ہوتی ہے۔ اس میں نظام وہی رہتا ہے مگر چہرے آتے جاتے رہتے ہیں۔ عمران خان صاحب کی جنرل فیض ضد تھے اور نواز شریف صاحب کی ضد حافظ صاحب تھے۔ جو کچھ آج ہم بھگت رہے ہیں یہ دو بڑوں کی ذاتی لڑائی تھی ناکہ یہ کوئی حق و باطل اور آئین و قانون کی جنگ تھی۔
جب تک سیاستدانوں سمیت سارا نظام گرا کر نیا تعمیر نہیں کیا جاتا تب تک کچھ نہیں بدلنے والا، وہی مائی باپ ہوں گے، وہی لڑکھڑاتی کرسی ہو گی، وہی کمزور وزیراعظم ہو گا اور وہی بابو کریسی ہو گی جو ایک اشارے پر گھنگھرو پہن کر مجرا کرے گی۔
ملک کو بدلنا کسی عمران خان، کسی نواز شریف یا کسی زرداری کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ سب ہوا بھرے غبارے ہیں جن کی ہوا صرف مقتدرہ کی صرف ایک سوئی سے نکل جاتی ہے۔ ملک کو بدلنا ہے تو پورا نظام بدلنا ہو گا، کیونکہ پورا نظام ہی تبدیل کیئے جانے کا متقاضی ہے، کمشنری نظام، پولیس و کچہری کلچر، نچلی عدالتوں تا اوپر تک، حلقہ بندی کی سیاست، بدمعاشی کلچر، کرپشن و اقرباء پروری، آئین و قانون میں بڑی تبدیلیاں، بیورو کریسی کے اختیارات کا متوازن نظام اور سول بالادستی سمیت اس قوم کی ذہنی و جسمانی تربیت میں بھی بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس بھی ایسا کوئی پائیدار اصلاحی و انقلابی منشور نہیں ہے جو اس نظام کو بدل سکے اور سیاست کے ان فرعونوں کا قلع قمع کر سکے۔ اب ملکی مفادات کی جگہ ایسے جونک نما سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی ہے، جو مختلف ملکی ترقیاتی سکیموں کے نام پر قرضے تک لے کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ملک میں ہر نئی آنے والی حکومت کو مزید مہنگائی کی کڑوی گولی نگلنی پڑتی ہے بلکہ وہ خوشی خوشی سے نگلتی ہے کہ اس سے خود ان کی اولادیں پہلے سے زیادہ فربہ ہو جاتی ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔