میاں وہمی
تبصرہ نگار : اظہر عباس (کوئٹہ)
شدید دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے دفتر سے چھٹی ماری اور گھر بیٹھے مطالعہ میں مصروف ہو گئے۔ باہر دروازے پر دستک ہوئی تو بیٹی بولی ،”بابا جان، باہر شائد رائڈر روٹیاں لایا ہو”
ہم نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک عجیب و غریب حلیہ میں شخص کھڑے تھے۔ ہمیں دیکھ کر موصوف ہکالاتے ہوئے بولے جناب اظہر صاحب کا گھر ہے۔
جی محترم بندہ ناچیز کو اظہر عباس کہتے ہیں۔ ہم تو موصوف کا حلیہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ یہ کس دنیا کی مخلوق ہیں۔ شدید سردی میں بھی سفید کرتہ اور دھوتی زیب تن کئے ساتھ چھبتے سبز رنگ کا کوٹ پہنے، بغیر جراب کے نسواری بوٹ، سر پر سرخ ترکی ٹوپی اور ہاتھ چھڑی لئے موٹی گول شیشوں والی عینک لگائےاور ہاتھ میں ایک پیکٹ کھڑے ہمارا نام دوبارہ کنفرم کرتے ہوئے بولے اظہر عباس کوئٹہ والے!
جی محترم اظہرعباس کوئٹہ والے۔
مگر باہر تو مجیٹھا ہاوس لکھا ہے۔
جی ہمارے اباواجداد مجیٹھا امرتسر سے ہجرت کر کے کوئٹہ گئے تھے اس لئے گھر کا نام اپنےبزرگوں کے گاوں کے نام کی مناسبت سے رکھا ہے۔
تو جناب آگے بڑھیں اور گلے لگ کر فخر محسوس کیجئے کیونکہ آپ کسی عام شخصیت سے نہیں محمد توصیف ملک کی جانب سے بھیجے گئے میاں وہمی صاحب سے مل رہے ہیں۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ پیکٹ میں موجود کتاب میں خود لے کر حاضر ہوا ہوں۔ مجھے ڈاکیہ پر اعتبار نہیں تھا۔ اور آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ہم میاں وہمی بقلم خود آپ کے پاس چل کر آئیں گے۔
ہم نے تو آپ کی مہمان نوازی کے قصے سن رکھے ہیں اور آپ ہیں کہ ہمیں اندر آنے کا بھی نہیں کہہ رہے۔ میاں وہمی کی یہ تعرف سن کر تو ہم سمجھ گئے کہ پیکٹ میں موجود کتاب محمد ملک توصیف نے نارووال سے بھیجی ہے مگر حیران تھے کہ بھیجی کس نمونے کے ہاتھ ہے۔
اسی دوران رایڈر بھی روٹیاں لے کر پہنچ گیا تھا، روٹیاں دیکھ کر میاں وہمی بولے کمال شخصیت ہے آپ کی ہمارے کھڑے کھڑے روٹیاں بھی منگوا لیں۔ آپ کی مہمان نوازی کا سن رکھا تھا آج دیکھ بھی لیا۔ نمونے نما میاں وہمی کی یہ بات سن کر نہ چاہتے ہوے بھی ہم نے انھیں اندر بلا کیا اور مہمان خانے میں بیٹھا دیا۔
گھر کے اندر داخل ہوے تو بیٹی بولی، بابا جان! روٹیاں آ گئیں کیا؟۔
جی بیٹی روٹیاں بھی آ گئیں اور بن بلائے مہمان بھی نازل ہو گئے ہیں۔محمد توصیف ملک کی کتاب لے کر میاں وہمی خود آن ٹپکے ہیں۔ آپ اور روٹیوں کا آرڈر کر دو اور مہمان خانے میں کھانا بھی بھیجوا دو۔
مہمان خانے میں میاں وہمی ہمارے کتابوں کے ریک کے پاس کھڑے فہیم عالم بھائی کی کتاب چچا تیز گام دیکھ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر بولے عباس صاحب کھانے میں کیا ہے ہمیں تو دیسی کھانے پسند ہیں۔ یہ سن کر ہمیں غصہ بھی آیا کہ نا جان نا پہچان میں تیرا مہمان اور وہ بھی بے وبال جان منہ پھٹ مہمان۔
میاں جی آپ تشریف رکھیں جو پکا ہے وہ حاضر ہو جائے گا۔ اس گہما گہمی کے دور میں سردی اور دھند کے عالم میں محمد توصیف ملک نے آپ کو کیوں بھیجا ڈاکیہ بھی تو لا سکتا تھا یہ پارسل۔
جی عباس میاں وہ لا سکتا تھا مگر آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے تو شہباز اکبر الفت نے کہا تھا کہ جب کھانا کھا لو تو فوری کافی کا مطالبہ کرنا ان کے گھر کی کافی بہت اچھی ہوتی ہے۔ یہ سن کر ہمیں اور بھی غصہ آیا کہ یہ نمونے نما میاں وہمی تو سریش کی طرح چپکنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور شدید غصے میں شہباز اکبر الفت کو دل ہی دل میں کوسنے لگے کہ اگر اب الفت اپنی کتاب "کہانی کار” لے کر آئے گا تو اس کو بغیر چائے کافی کے دروازے ہی سے رخصت کر دیا جائے گا۔ میاں جی آپ شہباز اکبر کو جانتے ہیں!جی عباس میاں وہ آنے سے پہلے میں نے فون پر ان سے آپ کے بارے میں پوچھا تھا۔
الفت تیری تو!!!! دل ہی دل میں ہم شہباز اکبر الفت کو کوسنے لگے۔
اتنے میں کھانا چن دیا گیا تھا اور میاں وہمی ہمارا انتظار کئے بغیر کھانے پر ٹوٹنے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔
کھانا کھاتے ہوے میاں وہمی بولے میری تو وسیم کھوکھر ہیڈ مرالہ سے بھی بات ہوئی تھے۔ وسیم کہہ رہے تھے کہ آپ آنے والے مہمانوں کو بحریہ کی سیر کرائے بغیر نہیں آنے دیتے۔ اس لئے کھانے کے بعد آپ کو سیر بھی کرانی پڑے گی۔
یہ سن کے کر ہمارے غصے کی توپوں کا رخ اب وسیم کھوکھر کی جانب ہو گیا تھا۔ دل کیا کہ وسیم کو فون لگاوں اور ایک ہی سانس میں بہت ساری گالیاں اس کی خدمت میں پیش کروں۔
مجھے اس طرح دیکھ کر آپ کو خوشی تو ہوئی ہو گی کیونکہ آپ واحد ادیب ہیں جس کی خدمت میں میں ازخود حاضر ہوا ہوں۔ میاں وہمی کی باتیں سن کر ہمارے اندر غصے کا لاوا پک رہا تھا اور موصوف کہہ رہے تھے کہ ہمیں خوشی ہوئی ہو گی۔
کھانا کھاتے ہوئے اچانک بولے عباس صاحب میٹھے میں کیا ہے؟۔ ان کی اس بے تکلفی پر ہمارے غصہ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مگر مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں یہ میری ماں نے مجھے سمجھایا تھا،” وہ کہتی تھیں کہ آنے والا مہمان تمہارا کھانے نہیں آتا بلکہ تمہارا رزق لے کر آتا ہے۔ یہ سوچ کر ہمارا غصہ یک دم ختم ہو گیا۔
کھانا کھانے کے بعد میاں وہمی بولے ہمیں شام تک واپس لوٹنا ہے، دھند کا موسم ہے شکرگڑھ کی گاڑی نہیں ملے گی۔ آپ مجھے بحریہ ٹاون کی سیر کروائیں ہم واپسی پر آپ سے کافی پیئں گے اور واپس لوٹ جائیں گے۔ اب آپ ہمیں رات ٹھہرنے کی ضد مت کیجئے گا۔
کھانا کھانے کے بعد ہم نے گاڑی نکالی اور میاں وہمی کو ساتھ لے کر بحریہ ٹاون کی سیر کو نکل گئے۔ سب سے پہلے ہم نے ٹرایفلگار سفاری ویلاز کا رخ کیا۔ میاں وہمی کو یہ جگہ بہت پسند آئی کالے شیروں والی اس جگہ پر میاں وہمی مختلف پوز بنا بنا کر تصاویر بنوانے کی درخواست کرتے رہے۔ ایک ہی طرح کے تعمیر شدہ مکانات دیکھ کر میاں وہمی حیران ہونے لگے۔ اور بولے عباس صاحب یہاں گھروں کے دروازے نظر نہیں آ رہے۔
جی وہمی میاں یہاں سیکورٹی کا بہترین نظام ہے اس لئے گھروں کے دروازے نہیں ہوتے یہاں۔ وہاں سے نکل کر ہم چڑیا گھر پہنچ گئے۔ اس چھوٹے سے چڑیاں گھر میں شیر، بندر، مارخور، ہرن، شترمرغ کے علاوہ مور اور دیگر پرندوں کو دیکھ کر میاں جی بہت خوش ہو رہے تھے اور سلفیوں پے سلفیاں لیے جا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں بھی تصاویر لینے کی درخواست کئے جا رہے تھے۔
ہم نے گھڑی دیکھی تو میاں جی کو بتایا کہ جناب جلدی کیجئے یہاں موسم سرد ہو رہا ہے اور جلد اندھیرا ہو جائے گا۔ وہاں سے ہم نکلے تو الیگزینڈریا جا پہنچے۔ اہرام مصر کی تہذیب کو دیکھ کر میاں وہمی پرجوش ہو رہے تھے۔ فرعون کے مجسمے ۔۔۔۔ بڑی بڑی بلیاں اور مجسمے دیکھ کر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ یہاں بھی مکانات ایک ہی طرز کے بنے ہوے تھے۔ تصاویر کا تقاضہ یہاں بھی جاری رہا۔ ہم وہاں سے نکلے تودنیا کی ساتویں بڑی مسجد پہنچے، خوبصورت مسجد دیکھ کر میاں وہمی کا ایمان تازہ ہو گیا، قرآن اکیڈمی میں نایاب قرآن مجید کے نسخے دیکھ کر بہت مطمئن نظر آ رہے تھے۔ وہاں سے نکلے تو سیدھا ایفل ٹاور پیرس پہنچ گئے۔ اتنا اونچا ٹاور دیکھتے ہوے وہمی میاں کی ترکی ٹوپی گرتے گرتے بچی۔ یہاں وہمی میاں کہنے لگے کہ ہماری ویڈیو بنائیں ہم نے ٹک ٹاک پر لگانی ہے۔ میاں وہمی کی خواہش کو دیکھتے ہوے ہم نے ان کی ویڈیوز بھی بنائیں اور تصاویر بھی۔
بحریہ ٹاون کی سیر کرتے ہوئے میاں وہمی بہت خوش تھے ۔ آلودگی سے پاک صاف ستھرا ماحول دیکھ کر میاں وہمی بولے کہ کیا واقعی ہم پاکستان میں گھوم رہے ہیں۔ یقین نہیں اتا، اتنی صفائی کسی اور جگہ نہیں دیکھی۔ اس سے پہلے کہ شام کے سائے گہرے ہوتے میاں وہمی بولے عباس صاحب چلیں اب گھر چلتے ہیں کافی پی کر واپس ناروال چلتا ہوں۔
ہم نے بھی شکر ادا کیا کہ چلو وہمی میاں سے جان چھوٹے گی۔ اس کے بعد ہم گھر لوٹ آئے۔ کافی پہلے سے تیار تھی۔ کافی پیتے ہوئے۔ میاں وہمی بولے کافی تو واقعی مزےدار ہے۔شہباز اکبر الفت نے جیسا کہا تھا ویسا ہی پایا آپ کو بحریہ ٹاون دیکھ کر دل بہت خوش ہوا مگر افسوس بھی ہوا۔
یااللہ خیر! اب وہمی میاں کو افسوس کس بات کا ہوا ہے۔ ہم نے تو پوری توجہ اور وقت دیا ہے محمد توصیف ملک کے مہمان کو۔
میاں جی دکھ کس بات کا۔۔۔۔!
عباس میاں یہاں ترتیب سے بنے خوبصورت طرز تعمیر کےمکانات دیکھے جگہ جگہ پارک دیکھے۔ صاف ستھری سڑکیں دیکھیں خوبصورت پلازہ اور شاپنگ مال دیکھے۔ لندن ، مصر اور پیرس دیکھا۔ دنیا کی ساتویں بڑی مسجد دیکھی، خوبصورت چوراہے اور فاونٹئن دیکھے بچوں کو پارکوں میں کھیلتے دیکھا۔ بزرگوں کو گپ شپ کرتے دیکھا۔ سب کچھ دیکھا مگر افسوس یہاں پبلک لائبریری نہیں دیکھی۔ کاش بحریہ ٹاون میں لائبریری بھی ہوتی۔ پارکوں میں چھوٹے کہانی گھر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ ان گوشہ کہانی میں لوگ بچوں کو کہانیاں سنا سکتے ہیں۔ کیوں عباس صاحب میں غلط کہہ رہا ہوں کیا؟۔
یہ سن کر ہمیں ہمیں لگا کہ میاں وہمی کچھ کچھ حقیقی بھی ہیں۔ ہم ان کی بات پر ابھی توجہ کر ہی رہے تھے کہ میاں وہمی بولے گاڑی آ رہی ہے اور ہم آپ سے رخصت چاہیں گے۔ آپ کے ساتھ گزرا وقت اچھا رہا۔ محمد توصیف ملک کے لئے کوئی پیغام۔
میاں جی آپ کی آمد کا شکریہ محمد توصیف ملک کی بھیجی کتاب کا شکریہ ادا کیجئے گا اور ان سے کہنا کہ، "اگر وہ چاہتا ہے کہ ان کا کردار امر ہو جائے اپنے کردار میاں وہمی کو ڈرامہ اور انیمیشن کی صورت میں بھی بچوں تک پہنچائے۔”
اتنے میں وہمی میاں کی گاڑی آ چکی تھی وہ ہم سے رخصت ہوئے تو ہم دیر تک سوچتے رہے جسے ہم نمونہ کہہ رہے تھے وہ تو کافی دلچسپ کردار کے مالک ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ہم کافی دیر تک ان کے بارے میں سوچتے رہے۔ پھر خیال آیا کہ محمد توصیف ملک کی جانب سے بھیجا گیا تحفہ کھول کر تو دیکھا جائے۔
خوبصورت سرورق کی حامل کتاب میاں وہمی جس میں تیس کہانیاں شامل ہیں ہمارے ہاتھ میں موجود تھی۔ جو خوبصورت مزاح سے بھرپور کردار ان کی تحریروں میں تھا ہم اس سے بالمشافہ مل چکے تھے اور وہ بلکل ویسا ہی تھا جیسا محمد توصیف ملک نے تخلیق کیا ہے۔ کتاب آٹو گراف کے ساتھ ہمیں ملی جس پر محمد توصیف ملک کا شکریہ۔ بچوں کا کتاب گھر نے بہت اہتمام سے شایع کیا اس کتاب کو۔ کتاب انتساب سے لے کر اختتام تک دلچسپ اورمزاح سے بھرپور ہے۔ نذیر انبالوی بھائی نے ادب اطفال کے اس ستارہ کے بارے میں ایک جملہ لکھا ہے،”میاں وہمی آغاز سفر ہے، ابھی محمد توصیف ملک نے اگے،بہت آگے جانا ہے”۔
دلی خواہش ہوگی کہ یہ کردار ڈرامہ اور انیمیشن کی صورت بھی دنیا تک پہنچے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔