دستور اور نواب ناظم میو
کالم نگار:۔ سید حبدار قاٸم
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں معاشی حالت سدھارنے کے لیے ٹیکسز میں آٸے روز اضافہ کر دیا جاتا ہے اب گیس کے بلوں میں ایک مزید بھاری ٹیکس کا اضافہ کر کے غریب عوام کی نیندیں حرام کی جا رہی ہیں باریاں لگانے والے سیاستدان جب حکومت کے لیے آتے ہیں تو قوم سے خطاب کرتے وقت پہلے قومی ترانہ سنا کر شاد باد منزل مراد کی نوید سناتے ہیں اور اس کے بعد جو پہلی بات کرتے ہیں وہ یہ کہ ان سے پہلی حکومت نے خزانہ خالی کر دیا ہے اس لیے ملک کو چلانے کے لیے ہمیں نٸے ٹیکس لگانے پڑیں گے اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے جب وہ اقتدار سے ہٹتے ہیں تو ان کے اپنے اکاونٹ میں اربوں روپے ہوتے ہیں اور غریب عوام کی وہی گلی سڑی زندگی اور در در کی ٹھوکریں ہوتی ہیں نٸی حکومت آ کر وہی الزام لگاتی ہے اور سابقہ حکومت پر کیس چلتے ہیں عدالت عظمٰی مجرموں کو بری کر کے صادق اور امین قرار دے دیتی ہے
ملک خدا داد پاکستان زرعی ملک ہے لیکن اس میں زرعی اجناس دشمن ملک سے بھی مہنگی ہیں اور قطاریں بنا کر آٹا لینا پڑتا ہے. دنیا کے قیمتی پتھر یہاں سے نکلتے ہیں تیل اور قدرتی گیس اس زمین میں وافر مقدار میں موجود ہیں ریکوڈک اس کی زمین میں پاٸی جاتی ہے جو دنیا کی مہنگی ترین دھات ہے سونا دریاوں میں بہتا ہے پہاڑ اس کے کوٸلہ اور قیمتی سرخ نمک سے بھرے پڑے ہیں پھر سمجھ نہیں آتی کہ ایٹمی طاقت پریشان حال کیوں ہے اور اس کا پیسہ کدھر جا رہا ہے اس کی معیشت کیوں تباہ حال ہے. اس کی عوام مشکلات کا کیوں شکار ہے
اس کے اہم محکمے لیز پر کیوں دے دیے گٸے ہیں اس کی عدالت کیا کام کر رہی ہے اس ملک کے سارے نظاموں میں کرپشن کیوں ہے پولیس سے لے کر ہر محکمے تک بد عنوانی کا شکار کیوں ہیں
اس کا نظام کیسے درست ہو گا امید کی کرن کب اس کے عوام کو منور کرے گی بہت سارے سوال ہیں جو ذہن میں جنم لے رہے ہیں امید کا شعلہ راکھ کیوں ہو گیا ہے اس ملک میں جو سر اٹھاتا ہے وہ سر کچل دیا جاتا ہے اس ملک کو کون چلا رہا ہے انسانی حقوق والے کہاں ہیں اس ملک میں دوسرے ملکوں کی اجارہ داری کب تک رہے گی دشمن ہمیں بہت سارے معاملات میں لتاڑتا جا رہا ہے ہم ایران اور چین سے سستی گیس اور بجلی اس لیے نہیں لے سکتے کیونکہ ہمارے مغربی آقا ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں کیوں نہ اس ملک کا دستور بدل دیا جاٸے جس میں لکھ دیا جاٸے کہ سیاست دان جس کے دورِ حکومت میں جتنا نقصان ہوا ہے وہ سارا نقصان اس کی پارٹی اور اس کے وزیر پورا کریں گے ملک کے دستور میں لکھ دیا جاٸے کہ مجرم کو تخت سے اٹھا کر تختہ پر چڑھایا جاٸے ان ہی حالات پر سوچ رہا تھا تو میری نظر سے ملک کے معروف شاعر و ادیب جناب نواب ناظم میو کا ایک شعر گزرا ہے جس نے میری فکر رسا کو مزید جلا بخشی ہے اور یہ شعر ان کے پہلے شعری مجموعہ "لمحوں کے زھر” کا ہے جو ملک کے دستور کو بدلنے کی تمنا کر رہا ہے شعر ملاحظہ کیجیے:۔
اس چمن کے خار ڈھل سکتے ہیں پھولوں میں ابھی
قابلِ ترمیم ہے پیرا کوئی دستور کا
جناب نواب ناظم کے مطابق یقیناً اس ملک کا دستور بدلا جاٸے تو خار پھولوں کا حسین روپ دھار سکتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں دو دستور ہیں ایک غریبوں کے لیے اور دوسرا امیروں کے لیے غریب جن راستوں پر چلتا ہے اس میں تا حدِ نظر شعلے اور کانٹے ہیں جب کہ امیر جن راستوں پر چلتا ہے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں ان پر قالین بچھاٸے جاتے ہیں سونے کی غذا کھانے والے امیر لوگ ملکِ خدا دادِ پاکستان کے غریبوں کے منہ سے مٹی کا نوالہ بھی ٹیکسوں کے بہانے سے نوچ لیتے ہیں جناب نواب ناظم کے شعر کے مطابق ملک کا اب دستور بدل دیا جاٸے اور اس میں لکھ دیا جاٸے کہ اس کے حاکموں نے اپنے دورِ اقتدار میں کیا کیا ہے تاکہ پتہ چلے کہ اس ملک کا پیسہ کہاں گیا ہے اور ان ظالموں سے یہ لوٹا ہوا پیسہ واپس لیا جاٸے. یہ پیسہ ان سے لے کر قومی خزانے میں جمع کرا کر غریب عوام پر لگایا جاٸے تا کہ انہیں بھی سکھ کا سانس نصیب ہو جس سے یہ غریب لوگ اب تک محروم ہیں لیکن یہ اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک یہ قوم ایک انسان دوست لیڈر پیدا نہیں کر سکتی اس ملک میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا اور اس کا دستور نہیں بدلا جاتا
Title Image by 5187396 from Pixabay
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔