یہ منکیرہ کی بقا کا مسئلہ ہے
تحریر : محمد ثقلین کانجن ، منکیرہ ضلع بھکر
مقبول حسین کی کہانی بہت سادہ ہے ۔ وہ شاعر ہے ۔ شاعر حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ۔ شاعر نوازے جاتے ہیں ۔ اور جو نوازے جائیں ، وہ معاشرہ سے کٹ آف ہو جاتے ہیں ۔ قدرت انہیں سیماب صفت عطا کر کے ان سے بڑا کام لیتی ہے ۔ جو لوگ زندگی کی انڈربیٹ کو سن لیتے ہیں ، وہ تنہا کر دیئے جاتے ہیں ۔ تنہائیوں میں رہ کر وہ بڑا کارنامہ سر انجام دے جاتے ہیں ۔ یہ کارنامہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اور اس کیلئے لازم نہیں ہے کہ اس کارنامے کی دھوم مچے ، لوگ واہ واہ کر اٹھیں ۔ ہر کسی کو ایک خاص مقدار اور معیار کے ساتھ نوازا جاتا ہے ۔ وہ اس عطا کردہ حدوں میں رہ کر اپنا کام کرتے ہیں ۔
مقبول حسین بھی نوازے گئے ہیں ۔ انہیں محمد و آلِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعریف و توصیف کرنے کیلئے چن لیا گیا ہے ۔ وہ دو شعری مجموعوں کے تخلیق کار ہیں ۔ ادبی دنیا انہیں مقبول ذکی مقبول کے نام سے جانتی ہے ۔ مقبول ذکی صاحبِ مطالعہ ہیں ۔ ان کا کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا ہے ، وہ زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ بسر کرتے ہیں ۔ کتاب سے دوستی نے انہیں پہچان دی ہے ۔ جو لوگ کتاب کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں ۔ وہ تنہا نہیں رہتے ۔ وہ ایک زندگی سے زیادہ زندگیاں جیتے ہیں ۔ وہ صرف اپنی نظر سے دنیا کو نہیں دیکھتے ۔ وہ جنتی کتابیں پڑھتے ہیں ، ان پر اتنے ہی مختلف رنگوں میں زندگی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے ۔ کتاب اور سفر ایک بے وقوف انسان کو عقل مند بنا دیتے ہیں ۔ کتاب انسان کو مرنے نہیں دیتی ۔ کتاب زندہ رکھتی ہے ۔ کتاب زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے ۔ آپ بھی کتاب سے دوستی کر لیں ، یقین کریں ، یہ آپ کو بور نہیں رکھے گی ۔ آپ عقل مند ہو جائیں گے ، آپ کتاب کے نشے کو انجوائے کرنے لگیں گے ۔ آپ کبھی تنہا ، بور اور بے کار نہیں رہیں گے ۔ کتاب آپ کو سوچنے اور اچھا کرنے پر ابھارے گی ۔ یہ آپ کی شخصیت کو نکھار دے گی ۔ کتاب سے دوستی نے مقبول ذکی کو نکھار دیا ہے ۔ ان کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں تو نہیں ہیں ۔ لیکن ان کا علمی و ادبی قد ڈگریوں سے بلند ہے ۔ وہ اردو اور سرائیکی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ٫٫ سجدہ ،، سرائیکی جبکہ دوسرا مجموعہ ٫٫ منتہائے فکر ،، اُردو زبان میں منظرِ عام پر آ چکا ہے ۔ مقبول ذکی مقبول شاعری کے ساتھ ساتھ جاندار نثر بھی لکھتے رہتے ہیں ۔ ان کا شعری کلام کئی علاقائی اور ملکی اخبارات پر شائع ہو چکا ہے ۔
ان کے پہلے شعری مجموعہ ٫٫ سجدہ ،، کو گولڈ میڈل بھی مل چکا ہے ۔ وہ دیگر کئی اعزازات سے بھی حاصل کر چکے ہیں۔ شاعری میں استاد نذیر ڈھالہ خیلوی سے اصلاح لے رکھی ہے ۔ طویل عرصے سے علمی و ادبی میدان میں اپنے قلمی جوہر دکھا رہے ہیں ، مگر پھر بھی ان میں سیکھنے کا ذوق موجود ہے ، ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں ۔ وہ ملک کے طول و عرض کے شعراء و ادباء اور علماء سے رابطے میں رہتے ہیں ۔ وہ دوستوں کو اکثر کتابوں کے تحفے سے نوازتے رہتے ہیں ۔
وہ خاکسار لیکھک کو اب تک دس سے زائد کتب پیش کر چکے ہیں ۔ ان کا تعلق منکیرہ سے ہے ، جو کسی زمانے میں ریاست تھی ۔ ریاست منکیرہ پر چار صدیوں تک عروج رہا ہے ۔ یہ ریاست سترہویں صدی میں آریاؤں نے قائم کی تھی ۔ سربلند خان نے منکیرہ شہر کے اطراف قلعہ تعمیر کروایا ، جس پر انیسویں صدی کے اوائل میں سکھوں نے قبضہ کرلیا اور یہ ریاست پنجاب میں سکھوں کے زیرِ انتظام چلی گئی ۔ سکھوں نے ریاست منکیرہ میں اپنے دو گاوں بسائے جس میں (سدو والا) موجودہ سعد والا اور شیر گڑھ شامل تھے ۔ جو دونوں آج بھی آباد ہیں ۔ ریاست منکیرہ کا زوال سکھ شاہی میں شروع ہو گیا تھا ۔ یہ ریاست ساؤتھ پنجاب میں ملتان کے بعد سب سے بڑی ریاست تھی ۔ لیکن پھر اس پر وہ وقت بھی آیا ، جب منکیرہ بھک دا ڈیرہ زبانِ زدِ عام ہو گیا ۔ قلعہ مسمار ہو گیا ۔ شہر گندگی کا ڈھیر بن گیا ۔ علمی و ادبی شخصیات مفقود ہو گئیں ۔ لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو ترس گئے ۔
ان کو تھانہ کچہری کی سیاست میں الجھا کر رکھ دیا گیا ۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس شہر میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے ۔ منکیرہ کی سیاست میں دھڑہ بندی کو اہمیت حاصل ہے۔ بڑے سیاسی گھرانوں میں چھینہ، بھڈوال،شاہی, ممڑ بلوچ، مگسی اور سیٹھ جبکہ ڈھانڈلہ اور نوانی خاندان کا بھی منکیرہ کی سیاست میں کلیدی کردار ہے۔ یہی خاندان منکیرہ کی پسماندگی کے ذمہ دار بھی ہیں۔ اقتدار میں رہ کر ان لوگوں نے منکیرہ کی تعمیر وترقی کیلئے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیا ہے۔ سابقہ ایم پی اے غضنفر عباس چھنیہ منکیرہ شہر اور مضافات کیلئے کئی پروجیکٹس لے کر آئے۔ جس سے منکیرہ کے کافی مسائل کو حل کرنے میں معاونت ملی ہے ۔ لیکن ابھی بھی اس شہر کے کئی مسائل ہیں ، سیوریج سسٹم ناکارہ ہے ۔ منکیرہ کو جانے والی سڑکیں زیادہ تر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ لوگوں کو آمد و رفت میں دقت پیش آتی ہے ۔ اور اس کے علاوہ سب سے اہم اس شہر کی پہچان تاریخی دیوار ، عمارات اور دیگر تاریخی آثار کا تیزی سے مسمار ہونے کی طرف گامزن ہونا ہے ۔ بدقسمتی کہ اس جانب نہ تو محکمہ آثارِ قدیمہ توجہ دیتا ہے اور نہ ہی مقامی سیاسی اور انتظامی عہدے داران اس اہم ایشو پر فوکس کرتے ہیں ۔ منکیرہ کی تاریخ کو محفوظ بنانے کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے ۔ منکیرہ میں ایک میوزیم بنایا جائے ، جس میں پرانے زمانے کی اشیاء جس میں گھریلو استعمال کی چیزیں ، دستکاریاں ، ہتھیار ، کھلونے ، قیمتی پتھر و دیگر اہم نوادرات رکھے جائیں ،
ریاست منکیرہ کی اہم شخصیات کی سوانح عمری مرتب کی جائے ، میوزیم کے ساتھ ساتھ اگر ایک لائبریری بھی قائم کر دی جاتی ہے ۔ تو نہ صرف منکیرہ کی تاریخ محفوظ ہو جائے گی ، بلکہ لوگوں کو تفریحی مقام بھی میسر ہو جائے گا ۔ منکیرہ کی تاریخ کو محفوظ بنانے کا مسئلہ منکیرہ کی بقا کا مسئلہ ہے ۔
اگر منکیرہ سے تاریخی عمارات اور قلعہ کے آثار مکمل طور پر مسمار ہو گئے ، تو منکیرہ منکیرہ نہیں رہے گا ۔ ٫٫ یہ من کیرا ،، ہو جائے گا ۔ یہ بھی دیگر عام بس اسٹاپ کی طرح ایک بس سٹاپ رہ جائے گا ۔ منکیرہ کی تاریخ کو محفوظ کرنا اہم مسئلہ ہے ۔ منکیرہ کے باشندوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ان کو اپنے منتخب سیاسی نمائندوں کے سامنے میوزیم اور لائبریری کا مطالبہ پر زور مہم کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے ۔ جبکہ منتخب نمائندوں کو اس شہر کی تاریخی اہمیت کو پاکستان سطح پر اجاگر کرنا ضروری ہے ۔ منکیرہ کے باشعور شہری اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ تو یقین مانیں یہ قدم منکیرہ کی قسمت بدل دے گا ۔
منکیرہ کی تاریخی اہمیت سیاحوں پر عیاں ہو جائے گی ۔ ہر شہر علاقے کی پہچان اس کے تاریخی اور تفریحی مقامات ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی تو یہ شہر رفتہ رفتہ اپنا تاریخی وجود کھو دے گا۔ نامور ور مؤرخ جارج ستیانہ نے کہا تھا ۔
٫٫ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں ، تاریخ انہیں سزا دیتی ہے ،،
منکیرہ کی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ منکیرہ کی بقا کا مسئلہ ہے.
محمد ثقلین کانجن
منکیرہ ضلع بھکر
Title Image by Chen from Pixabay
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔