الیکشن کا زہر
جس طبقہ کو یہ خوش فہمی ہے کہ وطن عزیز میں غیرجانبدار الیکشن ہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں وہ ملک و قوم کے دشمن نہیں تو خیرخواہ بھی نہیں ہیں۔ گزشتہ 35 سالوں سے نام نہاد سیاست دانوں نے جمہوریت کی رٹ قائم کر رکھی ہے۔ ہمارے بہت سارے سیاستدان بددیانت، نااہل اور غیر مخلص ہیں۔ ایسے نام نہاد سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے لیئے "مخبری” اور "راہ ہمواری” کا کام کرتے ہیں جس کے بدلے میں انہیں مراعات اور ہر نئی آنے والی حکومتوں میں حصہ بقدرے جثہ دیا جاتا ہے۔ یہ ایسے سیاست دان ہیں جن کے نزدیک جمہوری اصولوں کی پاسداری، حب الوطنی یا عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ان کو موقع ملے تو وہ ملک کا کچھ حصہ بیچ کر بھی کرسی پر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ جب سیاست دانوں نے جمہوریت کے نام پر ایسا بھدا اور بدنما سیاسی ماحول کھڑا کر دیا ہو اور سیاسی ادارے "مافیا” کی شکل اختیار کر چکے ہوں تو غیر جانبدار الیکشن کو بھی غیر جانبدار نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ہمارے مجموعی سیاسی و معاشی عدم استحکام کی بنیادی وجہ انہی سیاستدانوں کی ابتر گورننس ہے جنہوں نے دنیا بھر میں ہمارے نظام انصاف و احتساب کو تماشہ بنا رکھا ہے۔
ہمارے ملک کی آزادی کا آدھا وقت آمریت اور مارشل لاو’ں کی نظر ہوا ہے اور باقی آدھے وقت میں جانبدارانہ الیکشن ہوتے رہے ہیں۔ اس عرصے میں کوئی ایک الیکشن بھی ایسا نہیں ہوا جس پر "دھاندلی”، "پنکچرز” اور "رگنگ” وغیرہ کا الزام نہ لگا ہو۔ بناء بریں قیام پاکستان سے آج تک ایک بھی ایسی جمہوری حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے جس نے اپنی معینہ مدت پوری کی ہو۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کو احتساب کے نام پر رگڑا لگاتی ہے جس کا تاثر توڑنے کے لیئے اپوزیشن حکومت پر الزام تراشیاں کرنے، دھرنے دینے اور اسے وقت سے پہلے گرانے میں لگی رہتی ہے۔
اس گندے سیاسی کھیل میں سیاستدان اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو بھی گھسیٹ لاتے ہیں یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ کی عزت بچتی ہے اور نہ ہی عدلیہ کی۔
دنیا میں کامیاب جمہوریت عوام کے اعلی سیاسی شعور کی مرہون منت ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں عوام کا کوئی سیاسی معیار ہے اور نہ کوئی ایسا انتخابی عمل ہے جو الیکشن کو غیر جانبدارانہ بنا سکے۔
یہاں تک کہ طاقتور عالمی معاشرے ہمیں شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمارے ملک کو اکثر "بنانا ریپبلک” کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان اتنے لالچی اور کرپٹ ہیں کہ دو مختلف مواقع پر امریکی سینٹروں نے کہا تھا کہ ،”پیسے سے پوری پاکستانی پارلیمنٹ کو خریدا جا سکتا یے” اور "پاکستانی پیسے کی خاطر اپنی "م ا ں” کو بھی بیچ دیتے ہیں”۔ ہمارے اندر اجتماعی سطح پر غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز نہیں بچی جس کے بارے میں مفکر پاکستان علامہ اقبال نے فرمایا تھا: "غیرے ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں۔” پاکستان "واحد اسلامی ایٹمی قوت” ہے مگر دنیا کا باشعور، باعلم اور بیدار طبقہ ایٹمی پاکستان کی ناکامیوں پر حیران و ششدر ہے کیونکہ ہم پچھلے 35سالوں کے جمہوری ادوار میں مسلسل تنزلی کا شکار رہے ہیں۔
یہاں تک کہ ہمارے سچے بردار اسلامی ممالک جن میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، وہ بھی ہماری اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ ہر بار ان برادر اسلامی ممالک سے قرض لینے کے لیئے ہمارے حکومتی سربراہ کے دورے میں گارنٹی کے لیئے ہمارے آرمی چیف کو بھی ساتھ جانا پڑتا ہے، بلکہ ان ممالک کے سربراہان نے ایک سے زیادہ بار ہمارے حکمرانوں کو نصیحت بھی کی ہے کہ ہم خود انحصاری پر توجہ دیں کیونکہ ان کی ینگ جنریشن آج کی کمرشل دنیا میں پاکستان کی مزید معاشی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ہم پاکستانی حکومتی "کشکول” کی وجہ سے دنیا بھر میں "بھکاری قوم” کے طور پر جانے لگے ہیں اور ہماری یہ پہچان ہمارے انہی سیاستدانوں کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے بنی ہے جو سیاست کی آڑ میں ملک کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کھیلتے ہیں۔
اب تک جمہوریت اور ان سیاستدانوں کو بہت آزما لیا، بہت تجزیئے اور تحقیق بھی ہو گئی مزید کی ضرورت باقی نہیں بچی۔ ہماری زبوں حالی اور جاری مخدوش سیاسی صورتحال مکمل طور پر عیاں و بے نقاب ہے۔ اول تو پی ٹی آئی کو "لیول پلینگ فیلڈ” نہ دے کر غیر جانبدارانہ الیکشن کرانا ممکن نہیں ہیں اور کوئی سمجھتا ہے کہ یہ الیکشن مکمل طور پر غیر جانبدار ہونگے تو وہ نون لیگ کو ملنے والی سیاسی مراعات اور عدالتی ریلیف ہی کو دیکھ لیں۔ الیکشن کے نتائج کو پی ٹی آئی، عمران خان اور پیپلزپارٹی تسلیم کریں گے یا وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر محض "گو نون گو” کا شور شرابہ کریں گے اور نیشنل اسمبلی کو مچھلی مارکیٹ بتائیں گے؟ اگر گزشتہ حکومت میں عمران خان کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا تو آئندہ پی ٹی آئی (یا پیپلزپارٹی) برسراقتدار آئی تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ یہ انتقامی عمل نہیں دہرائے گی؟
یہ وہ بدترین اور خطرناک الیکشن دھاندلی ہے جو الیکشن 2024ء سے پہلے ہی امکانی حالت میں جاری و ساری ہے جس کے حقیقت پسندانہ ’’تجزیے‘‘ جان کی امان پاکر بھی کرنے کوئی آسان کام نہیں ہیں۔
پاکستان کو ابھی بھی وقت ہے کہ ابتری سے نکالا جا سکتا ہے لیکن صرف اورصرف اس اٹل حقیقت کو تسلیم کیئے جانے کے بعد کہ کم از کم اس تعلیمی معیار اور سیاسی سوچ کے ساتھ جمہوریت اور الیکشنز ہماری نجات ہرگز ممکن نہیں ہے۔ یہ سیاسی بے یقینی اور دھینگا مشتی چند سال مزید جاری رہتی ہے تو ہماری ریاست کا مستقبل انتہائی مخدوش ہو جائے گا۔ جتنے بھی میثاق جمہوریت یا سوشل کنٹریکٹ کر لیں سیاسی شخصیات کی بجائے نظریاتی شخصیات کو آگے نہیں لایا جاتا تو ملک بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔ اس وقت بھی ملک کی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ الیکشن کرانے یا نہ کرنے کے حوالے سے آمنے سامنے ہیں۔ دو دن قبل رات کو انٹرنیٹ کی سروس گھنٹوں بند کر کے عوام کا گلا گھونٹنے کا آئینی جرم کیا گیا۔ نگران حکومت کو عقل کے ناخن لینے چایئے۔ اگر آن لائن جلسے بھی نگران حکومت برداشت نہیں کر سکی تو الیکشن میں ہارنے والی جماعت انتخابی نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے ہضم کرے گی؟ سیاستدانوں کے لالچ، انتقام اور بدلے کی آگ سے لبریز یہ الیکشن بھی وطن عزیز کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیئے زہر قاتل ہے۔ جب تک نظام نہیں بدلتا ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی۔
Title Image by rawpixel.com on Freepik
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔