پاکستان پر عوام کا کوئی حق نہیں؟
ایک گاو’ں میں کسی گھوڑی سوار کو شام پڑ جاتی ہے۔ اس کی گھوڑی گابھن (یعنی حاملہ) ہوتی ہے۔ وہ رات بسر کرنے کے لیئے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک زمیندار کے ہاں ٹھہر جاتا ہے جہاں مال مویشیوں کے احاطہ (ڈھور ڈنگر باندھنے کی جگہ) پر وہ گھوڑی ایک بچھیرے کو جنم دیتی ہے۔ زمیندار صبح سویرے مہمان کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے مگر جب گھوڑی سوار اپنی گھوڑی اور بچھیرے کے ساتھ روانہ ہونے لگتا ہے تو زمیندار اسے روک لیتا ہے اور کہتا ہے، "یہ بچھیرا میرا ہے”۔ گھوڑی سوار بڑا حیران ہوتا ہے۔ زمیندار اور اس کی بحث سے محلے دار اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ زمیندار محلے والوں سے پوچھتا ہے، "بتاو’ یہ بچھیرا کس کا ہے”؟ اس سوال پر محلے والے سوچتے ہیں کہ گھوڑی والے نے تو چلے جانا ہے مگر انہوں نے عمر بھر گاو’ں میں اسی زمیندار کے ساتھ گزارا کرنا ہے۔ سارے محلے دار ایک زبان ہو کر کہتے ہیں، "ہاں یہ بچھیرا زمیندار کا ہے”۔ وہ مسافر بڑا پریشان ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تمھارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ بچھیرا اسی زمیندار کا ہے؟ جانوروں کے اس احاطہ میں زمیندار کی ایک بھیس اور ایک گائے بھی بندھی ہوتی ہے اور تیسرا جانور اس مسافر کی گھوڑی ہوتی ہے۔ زمیندار کہتا ہے کہ "یہ بچھیرا نہیں بلکہ بچھڑا ہے جسے اس کی گائے نے جنم دیا ہے”۔ یہ کہہ کر زمیندار اہل محلہ کی طرف دیکھتا ہے تو وہ تصدیق کرتے ہوئے کہتے کہ ہاں ہاں یہ بچھیرا نہیں بلکہ بچھڑا ہے۔ جب وہ گھوڑی بان اسرار کرتا ہے تو محلے والے گوائیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ، "اس گائے نے پچھلے سال بھی ایک ایسا ہی بچھڑا جنم دیا تھا جو بچھیرا لگتا تھا مگر وہ تھا بچھڑا!”
وہ گھوڑی بان عزت بچا کر اپنا بچھیرا زمیندار کے حوالے کر دیتا ہے اور گھوڑی کھول کر چلنے لگتا ہے تو محلے والوں میں سے ایک آدمی کہتا ہے، "جناب آپ کو ہمارے فیصلے پر کوئی اعتراض ہے تو گاو’ں کا نمبر دار بعد از دوپہر روزانہ عدالت لگاتا ہے آپ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر تعرض کریں۔ ساتھ ہی سب محلے والے نمبر دار کی انصاف پسندی کی بھی بڑھ چڑھ کر تعریف کرتے ہیں مگر وہ گھوڑی والا نمبر دار کی عدالت میں حاضر ہونے کی بجائے یہ کہتے ہوئے اپنی گھوڑی لے کر چل دیتا ہے کہ آپ کے گاو’ں میں انصاف کے بول بالا کا یہی معیار ہے تو نمبر دار نے میری گھوڑی یہ کہہ کر رکھ لینی ہے کہ اس گھوڑی کو پچھلے سال اس کی بھینس نے جنم دیا تھا۔
یہ لطیفہ نما رزمیہ کہانی چند روز قبل پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے خلاف نون لیگ اور جے یو آئی کے درمیان ہونے والے وسیع تر انتخابی اتحاد پر یاد آئی ہے جس میں دونوں سیاسی جماعتوں نے میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے "ماڈل ٹاو’ن” والے گھر میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد صدر مملکت بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ پی ڈی ایم (PDM) کی گزشتہ اتحادی حکومت جس کے وزیراعظم نون لیگی شہباز شریف تھے، اس میں جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزدے اسعد محمود وفاقی وزیر تھے اور مولانا فضل الرحمن کے سمدھی حاجی غلام علی خیبر پختوانخواہ کے گورنر تھے۔ جبکہ ان کے سگے بھائی مولانا عطاءالرحمان نہ صرف سینیٹر ہیں بلکہ وہ جمعیت علماء اسلام کے خیبر پختونخوا میں امیر بھی ہیں۔ دوسرے بھائی لطف الرحمان کے پی اسمبلی کے رکن تھے اور اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں جمیعت کے امیر بھی ہیں۔ مولانا کی سالی شاہدہ اختر علی بھی رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن رہی ہیں۔ پشاور کا میئر بھی مولانا کا رشتہ دار تھا۔ مولانا کے قریبی دوست اکرم درانی کا بیٹا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی رہا۔ جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں جے یو آئی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی اتحادی تھی اور خود مولانا فضل الرحمن کشمیر اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔
پاکستان میں موروثی سیاست کو فروغ دینے پر پہلے صرف نون لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی پر تنقید ہوتی تھی۔ گزشتہ اتحادی حکومت میں جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی اقربا پروری اور خاندانی و موروثی سیاست کی اس فہرست میں ببانگ دہل شامل ہو چکے ہیں۔ حالانکہ جمیعت علماء اسلام ہمیشہ سے ایک نظریاتی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی چلی آ رہی تھی۔ جماعت کے ناقدین نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرح کیا اس پوری جماعت میں نظریاتی لوگ صرف مولانا فضل الرحمان کے رشتے دار ہی ہیں؟
عمران خان کے بغیر نئ پی ٹی آئی جتنا بھی زور لگا لے وہ پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی کا مقابلہ کم از کم اس الیکشن میں نہیں کر سکتی ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی بھی اتنی مقبول جماعت نہیں ہے کہ وہ اکیلے الیکشن جیت کر حکومت بنا سکے۔ نون لیگ کی خاموشی اور دیگر ہم خیال جماعتوں مثلا ایم کیو ایم اور ق لیگ وغیرہ سے اس طرح کے درون خانہ ہونے والے اتحادات اور آنے والی ان سیاسی گوائیوں سے لگتا ہے کہ حالیہ عام انتخابات بھی عوام کو بچھیرے اور بچھڑے والے معاملہ کا سامنا ہے جو کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہونگے۔
جمہوریت عوام کو کوئی معاشی ریلیف نہیں دے سکتی یا معاشی استحکام نہیں لا سکتی تو اس کا بار بار تجربہ کرنا فقط وقت اور قومی دولت کا ضیاع ہے۔ مقتدرہ پچھلے پینتیس چالیس سالوں سے وقفے وقفے سے انتخابات کی گھوڑی نچاتی ہے، سمجھ نہیں آتی کہ اس نام نہاد سیاسی ریہرسل سے عوام کیا بچا کر لے جاتی ہے؟ اس دوران پیپلزپارٹی اور نون لیگ یا کسی ایک بھی حکومت و جماعت کو اپنی معینہ آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ہے۔ فوج کو نظام حکومت میں مستقل شامل کر لیا جائے یا پھر صدارتی نظام وغیرہ کا تجربہ کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ پر بھی الزامات لگتے ہیں کہ وہ کبھی پی پی پی کو، کبھی نون لیگ کو اور کبھی پی ٹی ٹی آئی وغیرہ کو لاتی ہے اور ہر بار انتخابات چوری کرتی ہے ماضی قریب کی ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ شائد یہ تین چار سیاسی پارٹیاں (اور مقتدرہ) یہی سمجھتی ہیں کہ پاکستان چوبیس کروڑ عوام کا نہیں، یہ موروثی حکومت کرنے والے انہی چند سیاسی خاندانوں کا ہے۔ عوام کی بھی سننی چایئے کہ ملک میں جمہوری نظام ہے تو وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے کسے اقتدار سونپنا چاہتی ہے۔ موروثی حکومتیں کبھی بھی عوامی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ ان کا بنیادی کام صرف اپنے من پسند طبقے اور افراد کو نوازنا ہوتا ہے۔
Title Image by Eak K. from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔