بلاول بھٹو کا بیانیہ، دھوکہ یا حقیقت؟
ان دنوں بلاول بھٹو زرداری کا بزرگ سیاست دانوں کی سیاست سے کنارہ کشی کا موقف زیر بحث ہے جس سے پیراڈاکس (Paradox) کے بارے ایک منقول بحث یاد آتی ہے۔ اس بحث میں چند شاگردوں کا ایک گروہ اپنے استاد سے پوچھتا ہے کہ مغالطہ (Paradox) سے کیا مراد هے؟
استاد جواب میں کہتا ہے کہ میں
اس کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ دو مرد میرے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاف ستهرا ہے اور دوسرا گندا ہے۔ میں ان دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ غسل کر کے پاک و صاف ہو جائیں۔ اب آپ بتائیں کہ ان میں سے پہلے کون غسل کرے گا؟
شاگرد کہتے ہیں گندا مرد۔ استاد کہتا ہے نہیں بلکہ صاف آدمی کرے گا کیونکہ اسے نہانے کی عادت ہے جبکہ گندے کو صفائی کی قدر و قیمت ہی معلوم نہیں۔ اب آپ بتائیں کہ پہلے کون نہائے گا؟ بچے کہتے ہیں کہ صاف آدمی، استاد کہتا ہے نہیں بلکہ گندا پہلے نہائے گا کیونکہ اسے صفائی کی ضرورت ہے۔ پس اب بتائیں کہ پہلے کون نہائے گا؟ سب کہتے ہیں کہ گندا آدمی
استاد کہتا ہے
نہیں بلکہ دونوں نہائیں گے کیونکہ صاف آدمی کو نہانے کی عادت ہے جبکہ گندے کو نہانے کی عادت نہیں ہے۔ اب بتائیں کہ پہلے کون نہائے گا؟ سب کہتے ہیں کہ دونوں۔
استاد کہتا ہے
نہیں کوئی بھی نہیں نہائے گا کیونکہ گندے کو نہانے کی عادت نہیں جبکہ صاف کو نہانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اب بتائیں کون پہلے نہائے گا؟ سب شاگرد کہتے ہیں کوئی نہیں۔ تب استاد مکرم ایک اور سوال داغنے کے موڈ میں ہوتے ہیں کہ آخر شاگرد اکتا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت جی آپ ہر بار الگ جواب دیتے ہیں اور ہر جواب ہمیں درست معلوم ہوتا ہے ہم کو بتائیں کہ ہمیں درست بات کیسے معلوم ہو گی؟ تب استاد کہتا ہے کہ پیراڈاکس (Paradox) یا مغالطہ یہی تو چیز ہے کہ جس میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ سچ بات کیا ہے۔ بلاول بھٹو کے اس بیانیہ کو بھی اسی قسم کے ایک سیاسی مغالطے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس وقت مقتدرہ کو مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ نہلا دھلا کر پہلے اقتدار کے سنگھاسن پر کس کو بٹھانا ہے نون لیگ کو یا پیپلزپارٹی پارٹی کو حالانکہ ان دونوں جماعتوں کو (برخلاف آزمودہ را آزمودن جہل است) پہلے ہی دو دو تین تین بار آزمایا جا چکا ہے؟ سیاست کے اس طرز کہن کے خلاف پہلی بار بلاول صاحب نے 9اگست کو نیشنل اسمبلی میں بطور وزیر خارجہ اپنے خطاب میں محترمہ مریم نواز شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری صاحب کو ایسے فیصلے کرنے چایئے جس سے میرے اور مریم نواز کے لئے سیاست کرنا آسان ہو جائے۔اس خطاب میں بلاول بھٹو نے اہم ترین بات یہ کہی تھی کہ، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بڑے ہم سے وہی سیاست کرانا چاہتے ہیں جو 30سال انہوں نے خود بھگتی ہے”۔
تین ماہ قبل بھی بلاول بھٹو نے بزرگ سیاست دانوں یعنی نواز شریف اور اپنے والد گرامی زرداری صاحب پر سخت تنقید کی تھی۔ اب جبکہ 2024 کے الیکشن کی مہم شروع ہوئی تو انہوں نے اس تنقید میں مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر بزرگ سیاستدانوں کو بھی شامل کر لیا۔ پہلے بلاول نے
16نومبر کو ایبٹ آباد میں اور پھر 21نومبر کو چترال میں
جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کو دوسری یا چوتھی بار وزیراعظم بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں آرام کرنے کا موقع دیا جائے۔ بلاول نے یہ بھی کہا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پرانے سیاست دانوں کو گھر بٹھانا پڑے گا، کیونکہ قوم کا مستقبل اب ایسے سیاست دانوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہوں۔
بلاول بھٹو اپنے اس موقف میں اتنے سنجیدہ دکھائی دیئے کہ اس حوالے سے ان کا اپنے والد آصف علی زرداری سے اختلاف ہوا اور وہ پاکستان چھوڑ کر دبئی آ گئے جس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک معاصر صحافی کو ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "بلاول ابھی ٹرینڈ نہیں، اس کی سیاسی تربیت کر رہے ہیں لیکن ابھی اسے وقت لگے گا۔” حالانکہ زرداری صاحب کا یہ موقف درست نہیں ہے کہ کسی کامیابی یا کارنامے کو انجام دینے کا تعلق صرف تجربے، عمر یا ٹریننگ وغیرہ سے ہوتا ہے۔ اگر اخلاص، ذہانت اور نئی سوچ ہو تو ملک کے حالات کو محض چند سالوں میں بدلا جا سکتا ہے جس کو خراب کرنے میں ان بزرگ سیاستدانوں نے کم و بیش چالیس لگائے ہیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے وصال سے قبل ایک جنگی مہم روانہ کی جس کے سپہ سالار ایک کم عمر غلام تھے (معذرت نام یاد نہیں) جن کی کمان میں بزرگ صحابہ کرام تھے مگر انہیں اس کم عمر صحابی کی قیادت پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم، موسی بن نصیر اور سپہ سالار طارق بن زیاد کم عمر تھے۔ حتی کہ کہا جاتا ہے کہ جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو ان کی عمر فقط 17برس تھی۔
39 سالہ امینیوئل میکخواں فرانس کی تاریخ کے سب سے کم عمر صدر منتخب ہوئے جنہوں نے نپولین بوناپارٹ کا 170 سالہ پرانا ریکارڈ توڑا جو 1848ء میں 40 برس کی عمر میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ فرانس کی آبادی کی اوسط عمر 41 برس ہے، سو میکخواں اس سے بھی دو برس چھوٹے تھے جب انہوں نے یہ ریکارڈ بنایا۔
سابقہ سوویت یونین کا حصہ جمہوریہ ایسٹونیا نے جب 2016ء میں ایک مخلوط حکومت منتخب کی تو 38سالہ جوری ریتاس اس کے وزیرِ اعظم بنے۔ یوکرین میں وولودی میر گروئسمان وزیرِ اعظم بنے تو ان کی عمر 38سال تھی۔ اسی طرح فن لینڈ کی وزیر اعظم سنا مارین 8دسمبر 2019 کو 34سال کی عمر میں اپنے ملک کی وزیراعظم بن گئیں۔۔۔!!!
بلاول بھٹو زرداری کا اپنے بیانات کے بین السطور میں اصل نقطہ نظر 36سال کی عمر میں اگلے الیکشن (2024) میں وزیراعظم بننا نہیں ہے بلکہ ملک میں نوجوان قیادت کو آگے لانا ہے جو کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی ان بزرگ قیادتوں کا متبادل ہے جو گزشتہ 40سالوں میں ملک کی حالت کو بدلنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں بلکہ اس دوران ملک نے ترقی نہیں، تنزلی کی یے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور شیخ رشید بھی نوجوان نسل کو آگے لانے کی وکالت کرتے رہے ہیں مگر اب عمران خان کی عمر 71سال اور شیخ رشید کی عمر 73سال ہے۔ اسی طرح نواز شریف کی عمر 73سال ہے اور شہباز شریف 72برس کے ہو گئے ہیں۔ لیکن ایک حکمران کو بہترین کارکردگی دینے کے لیئے سوال عمر کا نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی عمر 74سال ہے جبکہ جوبائیڈن 81سال کی عمر میں بھی امریکی صدر کے طور پر کامیابی سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا سیاسی مسئلہ عوام کی سوچ میں رویوں میں تبدیلی لانا ہے جو ان بزرگ سیاستدانوں کے مفاہمانہ انداز سیاست سے منجمد ہو چکی ہے اور جو نظریات کی بجائے شخصیات کے سحر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ ایک قسم کا مغالطہ یا پیراڈسکس (Paradox) ہی نہیں بلکہ ایک فریب (Illusion) بھی ہے جس میں ہماری قوم کو ان بزرگ سیاستدانوں دانوں نے ذاتی مفادات اور کرسی کے لالچ میں پھنسا رکھا پے۔
درحقیقت، بلاول بھٹو کا موقف نوجوان نسل کا "بیانیہ” ہے جو حقیقت پر مبنی ہے اور دھوکہ وہ ہے جس میں عوام کو گزشتہ اتنے عرصے سے بار بار خواب دکھا کر اور نت نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اس میں گرفتار رکھا گیا ہے۔ اب اپنی گندی سیاست کو نہلانا ہم پر واجب ہو چکا ہے۔ ہم مزید کتنے عرصے تک اس مبحث میں پڑتے رہیں گے کہ کس کو پہلے نہلانا ہے اور کس کو نہیں نہلانا ہے یا اسے یونہی تخت پر دوبارہ بٹھا دینا ہے؟ یہ ضروری نہیں کہ سنہ 2024ء میں بلاول بھٹو ہی کو وزیراعظم بنایا جانا چایئے مگر یہ ضروری ہے کہ اب ینگ جنریشن کو موقع دیا جانا چایئے جو کچھ کر گزرنے کا جنون رکھتی ہے۔ ملک میں مثبت تبدیلی آنی چایئے اور اس کو محض تنقیدی بیانات سے یہ کہہ کر رد نہیں کیا جانا چایئے کہ "بلاول ابھی بچہ ہے اور کچا ہے”۔ آخر کب تک ہم اپنی جمہوری سیاست کو اسی طرح دائروں میں گھماتے رہیں گے؟ نئی نسل اب اسے مزید برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔
Title Image by UN Geneva
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔