عامر بن کرم سے مکالمہ
انہوں نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں وٹس ایپ پر میرے کالمز موصول نہیں ہو رہے ہیں۔ ایک تو تمام قارئین کو فردا فردا کالم بھیجنا ممکن نہیں دوسرا قارئین کی اکثریت کے اختلاف رائے کو سنبھالنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جب کوئی کالموں کے مطالعہ کا شوقین قاری وٹس ایپ پر رابطہ میں ہو گا تو امکان ہے کہ وہ کالم پڑھنے کے بعد اپنا ردعمل، رائے اور تاثرات بھی ظاہر کرے گا۔ ایک لحاظ سے تو کالم نگار کے لیئے یہ ایک خوشگوار تجربہ ہے کہ اسے اپنا زہنی اور تخلیقی احتساب کرنے کے لیئے مفت میں ایک "فیڈ بیک” ملے گی۔ تاہم قاری کے لیئے بھی ایک یہ سہولت موجود ہے کہ ہر اخبار اپنے معزز قارئین کو آن لائن ای اخبار فراہم کرتا ہے کہ گوگل سرچ میں اخبار کا نام لکھ کر ایڈیٹوریل، کالموں اور خبروں سمیت پورا اخبار آن لائن پڑھا جا سکتا ہے۔
بہرکیف لکھاری اور قاری کے درمیان یہ مکالماتی شکوہ ایک طرف ہے، مگر کچھ دوست نما قارئین تو حسن اختلاف کرتے ہوئے مجھ سے باقاعدہ ناراض ہو گئے ہیں۔ جب میں عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ میں پرو نون لیگی ہوں یا پرو پپلی ہوں۔ جب پی ڈی ایم کی ناقص کارکردگی پر لکھا اور یا اب نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی مخالفت کر رہا ہوں تو وہ سمجھتے ہیں کہ شائد میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوں کیونکہ اب عام تاثر یہ پایا جا رہا ہے کہ فوج اور نون لیگ ایک پیج پر ہیں۔ اسی خوش فہمی میں دو روز قبل بلوچستان سے 30 ممکنہ کامیاب (الیکٹیبلز) سیاست دان نون لیگ میں شامل ہوئے ہیں حالانکہ میری رائے میں "آزمائے ہووں” کو دوبارہ آزمانا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ کچھ دوست تو یہ بھی کہتے ہیں کہ میں کسی "ایجنسی” یا "خفیہ” کا بندہ ہوں۔ لیکن بطور کالم نویس میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں جس چیز کا مشاہدہ کروں اسے اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق بیان کروں۔ قارئین کرام ہمیں یہ نہیں بھولنا چایئے کہ آرمی کے تعاون کے بغیر جس ملک کا نام "پاکستان” ہے، وہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جمہوری حکومت یا وزیراعظم اس سے پنگا لے کر اپنی مدت پوری کر سکتا ہے۔
بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ جب 10اپریل 2022 کو عمران خان کو عدم اعتماد کے جمہوری طریقے سے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا تو تب اگلی دو دہائیوں (یعنی کم و بیش 20سال کے عرصے) تک "اسٹیبلشمنٹ” اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ سول بالا دستی کے خواب کے ساتھ کوئی بھی حکومت اس کے سامنے قدم جمانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ میاں صاحب اور خان صاحب کے اقتدار سے نکلنے میں ایک مشترک قدر یہ تھی کہ ان دونوں کی رخصتی جنرل باجوہ کے دور میں ہوئی تھی جبکہ باجوہ صاحب کو ایکسٹنشن دینے والے بھی یہی دو سیاست دان تھے۔ میاں صاحب کو نکالنے کیلئے عدلیہ کا کندھا استعمال ہوا اور خان صاحب کو انکے مخالفوں نے اکٹھے ہو کر عدم اعتماد کے ذریعے نکالا۔ لیکن ایک ہی آرمی چیف کے دور میں دو انتہائی طاقت ور وزرائے اعظموں کی رخصتی جمہوریت کی کسمپرسی کے دو انوکھے واقعات ہیں۔ میاں صاحب "مجھے کیوں نکالا” کہتے ہوئے لندن روانہ ہوئے اور جب چار سال بعد واپس آنے لگے تو انہوں نے باوجوہ صاحب کے خلاف بیانیہ کا اعلان کیا۔ اسی طرح جب عمران خان صاحب کو جمہوری طریقے سے نکالا گیا تو انہوں نے بھی اینٹی باجوہ بیانیہ تیار کیا جسے وہ جیل جانے تک زور شور سے آگے بڑھاتے رہے۔ اگر عمران خان جیسے کڑک، ضدی اور دھن کے پکے سیاست دان کو اسٹیبلشمنٹ کھوڑے لائن لگا سکتی ہے تو "ڈیل” کے عادی نواز شریف اور زرداری یا ان جیسے دیگر "مصلحت پسند” سیاست دانوں کو کنٹرول کرنا اس کے لیئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
اس سکہ بند سیاسی نظام کو سمجھنے کے لئے قارئین کی معیاری زہن سازی کے لئے یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے کیونکہ آخر میں عوام ہی وہ طاقت ہے جو "سول بالادستی” کے قیام میں حتمی کردار ادا کر سکتی ہے۔ جتنا تحریر کے آسان اور پر اثر الفاظ قارئین کو سیاسی شعور دیتے ہیں اتنی ہی قاری سے مصنف کی رفاقت اہم رول ادا کرتی ہے کہ اس تعلق سے قاری کا نقطہ نظر براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ یہ عامر بن کرم سے میری دوسری بلواسطہ مگر مختصر ملاقات تھی اور میں انہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ بطور قاری اور لکھاری ہم دونوں کے کیا ایماندارانہ فرائض ہیں؟ یہ ایک کسک سی تھی۔ میں جلدی میں تھا اور وہ بھی کچھ مصروف تھے مگر ہم دونوں اس موضوع پر کچھ مکالمہ کرنا چاہتے تھے جس کو میں نے اس کالم میں اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اوقات مصنف لکھتا کچھ ہے اور قاری اسے سمجھتا کچھ اور ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ بعض قارئین لکھاریوں سے زیادہ فراست افروز اور نکتہ دان ہوتے ہیں۔ خیر ایک لکھنے والے کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور تحریر کو آسان اور عام فہم زبان میں لکھے تاکہ رائے سازی کا راستہ ہموار ہو۔ فصاحت و بلاغت کا بھی یہی تقاضا ہے جس کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا کہ:
سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں،
اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔