مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

Dubai Naama

مذہبی جنگ یا علمی تحریک؟

بہت سے اہل اسلام نشانہ ثانیہ کو اب ضروری سمجھتے ہیں۔ موجودہ اسرائیل اور حماس کی جنگ انتقام کا ایک مستقل بیج بو رہی ہے۔ شائد یہ جنگ تو ختم ہو جائے مگر اس جنگ میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی روحیں غزہ کی 140مربع میل کی پٹی میں ہمیشہ بھٹکتی رہیں گی۔ یہ سچی انسانیت کے خلاف انتقام (اور نفرت) کا ایک گھناونا منصوبہ ہے۔جوہان گوئٹے نے کہا تھا "جہاں سے قافلہ الہ گزرتا ہے صحرا و ریگستان بول اٹھتے ہیں کہ اے سوئے منزل جانے والو ہمیں بھی ساتھ لیتے چلو”۔ سوچو! اب انسانی "بقا” اور "نجات” کی یہ صدا کون لگائے گا؟ جہاں کمزور کو طاقت سے دبایا جاتا ہے وہاں انسانی لاشوں کی سرانڈ بھنبھناتی ہے۔ فلسطین میں جب ایک باپ ملبے سے بیٹیوں اور بیٹیوں کے بریدہ اعضاء اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو سوئے الہ جانے والا قافلہ آگے نہیں بڑھتا بلکہ وہیں رک جاتا ہے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ "فاسفورس” اور "ایٹم” بم، میزائیل، ٹینک اور لڑاکا طیارے بنانے کی فیکٹریوں کو قائم کرنے کا کیا مقصد ہے؟ یہ انسانی قتل گاہیں ہیں جن کی تعمیر انسان خود کر رہا ہے۔ وہ نفرت کی دیواروں کو اونچا کر رہا ہے اور انتقام کو بارود سے بھڑکا رہا ہے۔ تاکہ یہ انسانی خون کا دریا ہمیشہ بہتا رہے۔ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح قتل کیا جاتا رہے اور ان کا یہ منحوس کاروبار ہمیشہ چلتا رہے۔ اسلاموفوبیا کا مقصود یہی تو ہے کہ اسلام کے خلاف ایسی نفرت پھیلانی ہے جو مزید نفرت کو جنم دے اور انتقام کا ایسا بیج بونا ہے جو مسلم دنیا کے انسانوں کو اسی طرح ہڑپ کرتا رہے۔ یہاں تک کہ جنگ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں جاری رہے اور "اسلحہ” ہمیشہ بکتا رہے۔

حیرانی ہے جس طرح بحیثیت یہودی قوم اسرائیلی "تابوت سکینہ” اور "ہیکل سلیمانی” کو یہودیت سے جوڑتے ہیں امت مسلمہ نشاۃ ثانیہ کو "عقیدہ” سے جوڑتے ہیں! حالانکہ علامہ اقبال جیسی عظیم ہستی نے ”مذہبی نظریے کی از سر نو تعمیر“ The Reconstruction of Religious Thought جیسا معرکتہ آراء مقالہ لکھا تھا جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا "علمی احیاء” چاہتے تھے کیونکہ "نشاۃ ثانیہ” دراصل مستعار لی گئی مغربی اصطلاح ہے جسے انگریزی زبان میں renaissance یا ”احیائے علوم کی تحریک“ کہتے ہیں جس کا آغاز مغرب میں 14ویں صدی میں اٹلی سے ہوا اور 17ویں صدی میں انگلینڈ پہنچ کر اس کا خاتمہ ہو گیا۔

اس تحریک کی ابتداء بھی ایک کتاب کے لکھنے کے بعد ہوئی تھی جسے سب سے پہلے اٹلی کے مصنف جیکب بروچیٹ کی مشہور کتاب بعنوان، ”سویلائزیشن آف دی رینائسینس ان اٹلی“ میں بیان کیا گیا تھا لیکن بعد میں بے شمار لکھنے والوں نے اس کام کو ایک تحریک بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس کو لیونارڈو ڈا ونسی، مائیکل اینگلو، میچا ولی اور میڈیسی فیملی نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا تھا اور جسے مغربی مورخین جیسا کہ فرانسیسی تاریخ دان جولیئس مچلیٹ نے اس تحریک کو سب سے زیادہ نمایاں کیا تھا اور اسے باقاعدہ ایک تاریخ بنا دیا تھا جس وجہ سے مغربی دنیا میں سیاست، کلچر، فنون لطیفہ اور سائنسی علوم کے میدان میں ایک ”انقلاب” برپا ہوا جس کے بعد یورپ ”مڈل ایجز“ سے نکل کر باقی ماندہ ترقی یافتہ دنیا کے برابر کھڑا ہو گیا بلکہ اس سے بھی کہیں آگے نکل گیا جس کے بل بوتے پر یورپ اور امریکہ ابھی تک دنیا پر دھونس جمائے ہوئے ہیں۔

قیام پاکستان سے قبل علامہ محمد اقبال نے 1930ء کے اپنے آلہ آباد کے خطبے میں قیام پاکستان کا نقشہ پیش کیا تھا جسے ”خواب پاکستان“ کہا جاتا ہے جبکہ ان کی متحرک شاعری کا زیادہ تر حصہ بھی قیام پاکستان کے پس منظر میں "اسلامی نشاۃ ثانیہ” کے گرد گھومتا ہے جسے وہ ”طلوع اسلام“، ”شاہین“، ”خودی“ اور ”مومن“ جیسے اپنے آفاقی اور عالمگیر تصورات میں پیش کرتے ہیں مثلاً ان چند اشعار پر غور کریں:

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے ادھر ڈوبے، ادھر نکلے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے کہ
عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

حتی کہ علامہ محمد اقبال کی پوری شاعری اور فلسفے کا نچوڑ یہ ہے کہ وہ الہامی پیغام کو انسانی عظمت اور عروج آدمیت سے ملاتے ہیں اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے ”احیاء“ کو عقیدے کی بجائے جدید علمی ترقی اور عروج سے جوڑتے نظر آتے ہیں جس کا واضح اظہار انہوں نے اپنے مقالے میں کیا (جس کا اوپر آیا ہے) یعنی علامہ اقبال نے دینی عقیدے کے استحکام کو بھی جدید سائنسی علوم کی ترقی سے وابستہ کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ انہوں نے واقعہ معراج جیسے عظیم الشان واقعہ کو بھی سائنسی علوم کی ترقی کا زینہ قرار دیا تھا۔

جبکہ اس کے برعکس متحدہ ہندوستان کے مسلمان علمائے کرام نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور نشاۃ ثانیہ کے خواب کو دنیا میں علمی ترقی کی بجائے عقیدے کی ترقی سے جوڑ دیا۔ آج انہی علمائے عظام نے قرآن و حدیث کے حوالوں سے ”حضرت عیسی علیہ السلام“ اور ”امام مہدیؑ“ کی آمد اور ”غزوہ ہند“ وغیرہ کو مسلمانوں کے دوبارہ عروج کو ایک راسخ عقیدے کے طور پر باور کرا رکھا ہے۔ یعنی ہم مسلمانوں نے ”جوج ماجوج“ اور ”دجال“ کا خاتمہ علم سے نہیں، ”تلوار“ سے کرنا ہے اور یہ عروج دوبارہ ہمیں قرب قیامت کے قریب حاصل ہونا ہے!

مسلم امہ کی بہت بڑی تعداد اس تصور کو سینے سے لگا کر جی رہی ہے کہ ایک نہ ایک روز سورج مسلمانوں کے عروج کی نوید لے کر ضرور ابھرے گا کیونکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا یہ وعدہ گزشتہ صدی کے تمام بڑے مسلم مذہبی و سیاسی مشاہیر و اکابرین بڑے طمطراق سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اگر قرآن کی پہلی آیت ”اقراء“ اور ”ملائک مسجود“ کا مطلب علم کی بجائے صرف جنگ و جدل اور سہل انسانی خون کی ترویج و سبیل ہے تو پھر سرسید احمد خان اور علامہ محمد اقبال کے علاوہ روسو، وولٹیئر اور روبسپیئر وغیرہ کے خیالات و افکار کا جادو جو یورپی نشانہ ثانیہ میں سر چڑھ کر بولتا رہا تھا اور جس کے سامنے صدیوں سے رائج پاپائیت اور بادشاہت کی فلک بوس دیواریں دھڑام سے زمین پر آ گری تھیں، ان خیالات و افکار کو بھی فی الفور تاریخ کے کوڈے دان میں پھینک دیا جانا چاہیے ۔

نسل انسانی کا علمی سفر پہلے رکا ہے اور نہ ہی آئندہ رکے گا مگر مسلمان اس نکتہ کو نہ سمجھ سکے تو ان کا سنہرا دور اب صرف ماضی کی یاد بن کر ہی رہ جائے گا کیونکہ اقوام علم کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں ناکہ فریب زدہ روایات اور عقائد کی جنگ پر کرتی ہیں۔ اہل فکر کے سامنے آج یہی چبھتا ہوا سوال ہے کہ دوبارہ عروج کی ان کج فہم روایات کے ہوتے ہوئے مسلم دنیا کا یہ عروج والا زمانہ واپس لوٹ بھی سکتا ہے یا نہیں؟

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سیاست سے سیاحت

ہفتہ نومبر 11 , 2023
انکڑ کے کنارے سحر انگیز نظاروں اور سر بلند چوٹیوں والی وادی اگر کسی اور علاقے میں ہوتی تو اس کے کناروں پر پکنک سپاٹ بن چکے ہوتے
سیاست سے سیاحت

مزید دلچسپ تحریریں