عاصم بخاری کی شاعری میں توصیف جمال کا پہلو
مبصر
(مقبول ذکی مقبول بھکر)
عاصم بخاری کا غالب تعارف اگرچہ یہی ہے کہ انھوں نے صرف اخلاقی و اصلاحی ، معاشی و معاشرتی اور سماجی پہلووں کو موضوع شعر بنایا ہے۔ جب کہ عاصم بخاری کی شاعری کا ایک اہم گوشہ جسے توصیف ِ جمال کا نام دوں تو زیادہ مناسب ہو گا۔وہ قارئین ِ شعر و ادب کی نظروں سے اوجھل رہا۔اس کے مختلف پہلو وں پر بات مقصود ہے۔
یہ بخاری صاحب کا وہ تازہ کلام ہے جو کہ گلزار احمد نوشی صاحب(چیف ایڈیٹر ، روز نامہ "ٹھنڈی آگ”۔گجرات) صاحب کی علم دوستی اور ادب نوازی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ قطعات کی صورت تواتر سے ایک مدت سے روز نامہ” ٹھنڈی آگ” گجرات میں شائع ہوتا رہتا ہے۔
عاصم بخاری کے فن ، شخصیت اور ان کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ وہ ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جن کے سینے میں بھی دھڑکتا اور تڑپتا دل موجود ہے۔ حساسیت شاعر کی صفت ِ اول ہوا کرتی ہے۔حسن اور فطرت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکنا شاعر کی تعریف میں شامل ہے۔
عاصم بخاری کے فطرت سے متاثر ہوتے اشعار سے اپنے موضوع کو چھیڑتے ہیں
عاصم محبتوں کے قبیلے کا اصول
ہوتی نہیں ہے کوئی کبھی ذات چاند کی
اپنے چمکتے چہرے سے زلفیں ہٹا بھی دو
واضح کرو زمیں پہ علامات چاند کی
عاصم بخاری کا تصور ِ محبوب بھی ولی دکنی کے جیسا ہی ہے۔کوئی ماورائی کردار نہیں بلکہ گوشت پوست کا انسان ہی ہے ۔عام معاشرے کا چلتا پھرتا اور بولتا چالتا کردار ہے۔
قطعہ دیکھیۓ
ہر ادا دل ربا ، تری قاتل
تیرا دیوانہ ہو گیا ہوں میں
لاکھوں دیکھی ہیں پر ،کشش لیکن
تیری آنکھوں میں کھو ، گیا ہوں میں
اس کے ساتھ ساتھ انہیں حسن کی ناپائیداری کا احساس بھی جاں گزیں ہے۔عبرت ناک اور سبق آموز قطعہ دیکھیئے۔
یہ حسیں مہ جبین ، بھی عاصم
دائمی نیند سو ، ہی جائیں گے
ایک دن دودھیا ، بدن یہ بھی
خاک میں خاک ہو ہی جائیں گے
عاصم بخاری کے ہاں بھی ہمیں جمال پرستی بھی کہیں کہیں ملتی ہے اس سلسلہ ء جمال دوستی میں بھی ولی کے پیرو دکھائی دیتے ہیں۔حسن پرستی ان کی شاعری میں بہ درجہ ء اتم ملتی ہے۔قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہر ادا ، دل ربا ، تری قاتل
تیرا دیوانہ ہو ، گیا ہوں میں
لاکھوں دیکھی ہیں پر کشش لیکن
تیری آنکھوں میں کھو گیا ہوں
میں
عاصم بخاری کے ہاں حسن پرستی میں پاکیزگی ملتی ہے ۔ہر حسین کی ہر ادا ان کے دل کو لبھاتی دکھائی دیتی ہے
ایک اور قطعہ اِسی مزاج کا
غماز ملاحظہ ہو۔
دل سنبھالے سے بھی سنبھلتا کب
چشم ِ مخمور وہ ، نہیں دیکھی
تِل ہی رخسار کے ، فقط دیکھے
تو نے وہ آنکھ جو ، نہیں دیکھی
عاصم بخاری کے ہاں حب ِ جمال اور توصیف بڑے دبنگ انداز میں ملتی ہے قدرتی مناظر میں دریا کنارے محبوب کا سراپا کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں
عاصم بخاری محبوب کے حسن و جمال میں سے آنکھوں سے بہ طور خاص متاثر دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ ان کا ذکر ان کے ہاں مختلف زاویوں سے اور بے ساختہ ملتا ہے
قطعہ دیکھیۓ
شوخ تیری ، شرارتی آنکھیں
دل کو بھَاتی بجھارتی آنکھیں
حسن پہلے بھی کم ، نہیں تیرا
اور اِس کو نکھارتی ،آنکھیں
محبوب کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پیشانی کا تذکرہ کس خوب صورت اور منفرد الفاظ میں کرتے ہیں
قطعہ ملاحظہ ہو
یوں ہی پڑھتے رہے ، کتابوں میں
معنی اِس لفظ کے ، مرے بھائی
اس کی پیشانی جب سے دیکھی ہے
"مَہ جبیں ” لفظ کی ، سمجھ آئی
محبوب کے رخسار کے تِل کا نقشہ اکثر شعرا نے کھینچا ہے مگر اس موضوع کی تصویر کشی اور ندرت عاصم بخاری کے لفظوں میں اپنی مثال آپ ہے۔
قطعہ پیش ِ خدمت ہے
مختلف پیراۓ میں اشعار دیکھیۓ
تِل کیا دیکھا کسی رخسار کا
یاد تیرے ہونٹ کا ، تِل آ گیا
اِسی مضمون کو ایک اور زاویے سے کس کامیابی کے ساتھ باندھتے دکھائی دیتے ہیں۔
شعر دیکھیۓ
ہونٹ کے تِل۔۔۔۔ کو کس خوبصورتی سے باندھا گیا ہے
جان ِ جاں ہر اک ادا ، قاتل تری
ویسے تھوڑی تجھ پہ یہ دل آ گیا
تِل کیا ، دیکھا کسی ، رخسار کا
یاد تیرے ہونٹ کا ” تِل "آ گیا
اِسی بات کے بیان کیا باکمال اور اچھوتے انداز میں ملاحظہ ہو
تم نے رخسار کے ہی دیکھے ہیں
ہونٹ کا تِل” ابھی، نہیں دیکھا
آخر میں عاصم بخاری کی فطری و قدرتی مناظر اور محبوب کے حسن و جمال کی غمازی کرتی ایک خوب صورت غزل کے اشعار کے ساتھ اجازت
فردوس کی خوشبو ہے کہ جنت کے نظارے
ساحل کی ہوا اور کھلے گیسو تمہارے
بے تاب نہیں چاند فقط دید کی خاطر
جھک جھک کے تجھے تکتے ہیں افلاک کے تارے
اے حسن کی دیوی تری تعظیم کی خاطر
دریا کی ہر اک لہر قدم چومے تمہارے
قاتل ہیں مری جان تری ساری ادائیں
اس دل کو لبھائیں ترے ابرو کے اشارے
اس دل نے تو ہر حال یہی ٹھان ہی لی ہے
جینا ہے تو جینا ہے فقط تیرے سہارے
دل کہتا ہے ساتھ اس کا ہو اور چاندنی راتیں
آ عمر بتا دیں سبھی اس دریا کنارے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔