فقیر میاں امدادحسین لیکھی سرائی

فقیر میاں امدادحسین لیکھی سرائی

تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

                فقیرمیاں امداد حسین ولد حکیم میاں الٰہی بخش سرائی آپ ۱۹ ستمبر ۱۹۷۸ء بروز منگل بمطابق ۱۲ شوال ۱۳۹۸ ھجری لیہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بخاری پبلک اسکول جوگی موڑ سے حاصل کی جماعت چہارم میں نور السلام رحیمیہ پبلک سکول محلہ قاضیاں والا میں داخل ہوگئے ۔ جہاں سے انھوں نے پرائمری کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔۱۹۹۶ء میں میڑک کا امتحان گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول سے پاس کیا ۔نامسائد حالات کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔

                میڑک کے بعد فقیر میاں امداد حسین سرائی ، دسمبر ۲۰۰۱ء فوج میں بھرتی ہوگئے لیکن پانچ ماہ بعد اپریل ۲۰۰۲ء میں محکمہ ریلوے سے ملازمت کے لیے سرکاری لیٹر جاری ہوا تو انھوں نے فوج کو خیر آباد کہہ کر پاکستان ریلوے میں ۱۳ ستمبر ۲۰۰۲ء بہ طور SMR بھرتی ہوگئے ۔ آج کل وہ بھکر ریلوے اسٹیشن پر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں ۔

                 فقیر میاں امداد حسین سرائی کوعلمی و ادبی ذوق ورثے میں ملا ہے ۔ بچپن ہی سے اپنے والد بزرگوار طبیب حاذق حکیم میاں الٰہی بخش سرائی کے ساتھ ادبی محافل ، مشاعرے اور فقہی مجالس عزا میں جانے کی وجہ سے ذوق و شوق نقطہ عروج پر پہنچ گیا ۔ اوائل دنوں میں ۲۴ نومبر ۱۹۸۱ ء روز نامہ آفتاب ملتان اور۷ دسمبر ۱۹۸۱ ء روز نامہ جنگ لاہور میں والد بزرگوار کے ساتھ ان کی تصاویر شائع ہوئی تو ان کے اندر علمی و ادبی ذوق مزید پروان چڑھنے لگا ۔ جس کی وجہ سے وہ ڈاک ٹکٹیں ، کرنسی نوٹ ، سکے جمع کرنے لگے ۔ جب کافی سارا مواد جمع ہوگیا تو انھوں نے ان پر ایک بھرپور تحریر بعنوان ٫٫ڈاک ٹکٹوں کی دنیا،، لکھی جو جون ۲۰۰۰ء ماہنامہ بزمن ورلڈ لاہور میں شائع ہوئی ۔

فقیر میاں امدادحسین لیکھی سرائی
مقبول ذکی مقبول ۔میاں امداد حسین لیکھی سرائی اور گلفام حسین

                فقیر میاں امداد حسین کے والد گرامی لیہ کی معروف علمی ا دبی شخصیت تھے ۔ انھوں نے اپنے ڈیرے پر ایک بہت بڑی لائبریری قائم کر رکھی تھی جس کا نام انھوں نے ’’سرائیکی کتب خانہ و تھل میوزئم‘‘  رکھا ہوا تھا ، جس سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے کے لیے تشریف لاتے تھے ۔ جن میں ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا ، بیرسٹر تاج محمد لنگاہ ، نسیم لیہ ، ڈاکٹر خیال امرہووی ، غافل کرنالی ، عدیم صراطی ، فیاض قادری ، شعیب جاذب ، جعفر بلوچ ، واحد بخش بھٹی واحدی ، ملک عاشق حسین کھوکھر ، ملک یار محمد کلو ، اکرم میرانی ، زبیر شفیع غوری ، مہر اختر وہاب ، نواز صدیقی ، برکت اعوان ، عثمان خان گڑیانوی ، حکیم سید فدا حسین شاہ بخاری، ممتاز رسول خان ، مسرور بدیوانی ، مولا داد خان ، امان اللّٰہ کاظم ، ڈاکٹر لیاقت مگسی سندھ،مطلوب قریشی ، خادم حسین کھگہ ، یعقوب علی زدراری سندھ ، لائق زرداری ، حمید اصغر شاہین ، مہر نور محمد تھند ،امان اللّٰہ خان ، معروف رباعی خواںمیاں خادم حسین سرائی ، میاں غلام حسین سرائی ، میاں غلام اکبر سرائی ، فقیر غلام رضا ، پروفیسر ریاض حسین راہی ، منیر شوق، اسحاق انجم ، ذاکر مجید حسین راز اور ذکی تنہا ، جیسے شعراء و ادبا اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آستانہ فقیر پر تشریف لاتے تھے ۔

                علمی و ادبی شخصیات کی خدمت گزاری کا کام فقیر میاں امداد حسین کے ذمہ تھا، جن کی صحبت اور علمی گفتگو سے وہ فیضایاب ہوتے رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود ان کی علمی گفتگو میں شرکت کرنے لگے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کی علمی وسعت میں اضافہ ہوا ۔ اپنے والد بزرگوار طبیب حاذق حکیم میاں الٰہی بخش سرائی کے انتقال کے بعد ان کے ادبی ورثے کو سنبھالے ہوئے ہیں اور ان میں مزید وسعت دے رہے ہیں ۔

                عصر حاضر میں فقیر میاں امداد حسین سوشل میڈیا کی اہمیت کو جانتے ہوئے۔ ایک یو ٹیوب چینل بنارکھا ہے ۔ جس میں لیہ کے آثار قدیمہ کی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ جن میں ان کی اہمیت ، ان کی شکست و ریخت کے احوال شامل ہوتے ہیں۔ان کی منفرد کاوش یہ ہے کہ انھوں نے برصغیر کے نامور ماہر لسانیات ، ڈی لیٹ ،گوپی چند نارنگ سے ۲۰۲۱ء میں لیہ کی تاریخ پر کیشو فلم، کیشو ملتانی نے بعنوان ’’گوپی چند نارنگ اور ان سے وابستہ یادیں‘‘ دو تاریخی انٹرویو ریکارڈ کرائے۔

پانی پت کے نامور وکیل پریم ویر ڈھینگڑا (سابقہ لیہ پنجاب)دو مرتبہ۲۰۱۸ء اور ۲۰۲۲ء میں پاکستان آئے تو وہ  اپنے آبائی شہر لیہ اورخصوصی طور پر میاں امداد سرائی کے پاس تشریف لے آئے ۔اسی طرح بھارت سے تعلق رکھنے والے دیگر احباب ارن میترا ، دلیپ ورما، پروفیسر مہندر پرتاپ چاند ،ایس کے جین، پروفیسر یو بی ھنس،۲۴ اکتوبر۲۰۱۰ء  میں آستانہ فقیر پر تشریف لا چکے ہیں، اور تا حال پروفیسر یو بی ھنس کے بیٹے شیش ھنس فقیر میاں امداد حسین  کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

                فقیر میاں امداد حسین سرائی کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں ڈپٹی کمشنر لیہ اظفر ضیاء نے ان کو تعریفی سرٹیفکیٹ سے نواز ہے۔اس طرح ان کی ادبی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھیل ادبی سنگت کے چئیر مین زاہد اقبال بھیل نے حال ہی میں ان کی دستار بندی کی ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

انجیرالحکمااور انجیر الحمقا

جمعہ ستمبر 1 , 2023
حکیم حضرات اپنے نسخوں میں اجزا اور دواؤں کے شاعرانہ نام استعمال کرتے ہیں۔نمک کو نمک لاہوری،املی کو تمر ہندی اور انجیر کو انجیر سمرنا
انجیرالحکمااور انجیر الحمقا

مزید دلچسپ تحریریں