مقبول ادیب
مجھے یاد پڑتا ہے کہ مقبول ذکی ، سے میرا رابطہ اور تعلق معروف صحافی اور بھکر منکیرہ کے مشہور شاعر و ادیب سید علی شاہ مرحوم کی وساطت سے ہوا تھا ۔شاہ جی اللّٰہ کو پیارے ہو گئے لیکن مقبول ذکی مقبول نے اس رشتے کو مضبوطی سے استوار رکھا ۔
مقبول ذکی مجھے دو حوالوں پیارے لگتے ہیں پہلی وجہ تو یہ ہمارے دوست علی شاہ مرحوم کی نشانی ہیں ۔ جب ملتے ہیں شاہ جی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ ان کی دوسری خوبی اور اچھی بات جو کہ نا صرف مجھے بلکہ ہر ادب دوست کو بھاتی ہے وہ ان کی شاہ صاحب کی ادبی جانشینی ہے ۔ یہ شاہ جی ادبی حوالے سے شاگرد کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یقیناً شاہ جی کی روح بھی دن کی ادبی فرماں برداری پر خوش ہوتی ہوگی ۔
اگر مقبول ذکی مقبول کی ادبی خدمات اور جہات کی بات کی جائے تو کثیر الجہات شاعر و ادیب ہیں ۔ نظم و نثر دونوں میدانوں میں سر زمین ِ بھکر کی نمائندگی کرتا ان کا ادبی پرچم صرف ملک بھر میں ہی نہیں اس کی دھمک اور بازگشت وہاں وہاں محسوس کی جا رہی ہے جہاں اردو دان اور ادب دوست طبقہ موجود ہے ۔
حالیہ کتاب "سنہرے لوگ ” میں ملک بھر سے بشمول آزاد کشمیر نمائندہ شاعروں ادیبوں کے انٹرویوز کا کتابی شکل دینے کا احسن اقدام کیا ہے ۔اور اس پر مستزاد کہ مزید ایک انٹرویوز پر مشتمل ایک اور کتاب۔۔۔۔۔۔ لانے کی نوید بھی دے رہے ہیں۔”سنہرے لوگ” کے مطالعہ سے ان کے تحقیقی و تنقیدی شعور کی پختگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ اس طرح ایک ادبی تاریخ کا سلسلہ بھی مرتب ہوتا نظر آتا ہے ۔ انھوں نے اتنی شخصیات کی زندگیوں کے مختلف اور کامیاب گوشے قاری ء ادب کے سامنے رکھ کر میرے خیال میں بھکر کا نام اور ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔ ان کا یہ تحقیقی و تنقیدی کارنامہ انہیں ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا ۔ آج کے ادب کو ضرورت بھی ایسے ہی کاموں کی ہے ۔دعا ہے سدا سلامت رہیں اور اس سے بھی زیادہ مقبول ہوں ۔ (آمین)
پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی
اندرون قلعہ منکیرہ ضلع بھکر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔